کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 71
تیسرا جواب :
اس کلام کے ساتھ امت کو اس لئے خطاب کیا گیا ہے، تاکہ امت حرام کو پہچان کر اس سے اجتناب کرے، اور اپنے اجماع میں اسی اجماع سے استناد کرے، اور اپنے باہمی نزاع میں اسی سے استدلال کرے، پس اگر لفظ عام سے مراد کی صورت ایسی چیز ہو جس پر صرف لوگوں کا اجماع ہے، تو چاہئے کہ معنی مراد کا علم اجماع پر موقوف ہو، اور اجماع سے پہلے اس سے استدلال صحیح نہ ہو ، پس وہ معنی مراد اجماع کی طرف مستند نہیں ہوگا (پھر بلا دلیل رہ جائے گا ) کیونکہ مستند اجماع کے لئے ضروری ہے کہ اس پر متقدم ہو، اور اس سے متاخر ہونا ممتنع ہوگا، کیونکہ یہ دور باطل کا باعث ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں حدیث سے اہل اجماع کو استدلال کرنے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہوگی ، جب تک کہ اہل اجماع یہ معلوم نہ کرلیں کہ یہی صورت مراد ہے، اور صورت مراد اس وقت تک معلوم نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اجماع نہ کریں ، پس استدلال اس اجماع پر موقوف ہوگا جو اس سے قبل رہا ہو، اور اجماع اس استدلال پر موقوف ہوگا جو اس کے پہلے سے موجود ہے، ایسا اس وقت ہوگا جب ان کی دلیل حدیث ہو، اسی طرح لازم آئے گا کہ ایک چیز موقوف علی نفسہ پر موقوف ہو، جب کہ اس کا وجود ممتنع ہے، اس لئے یہ صورت محل اختلاف میں حجت نہیں ہوگی، کیونکہ ایسا کہیں ہوا نہیں ہے، یہ محل اتفاق اور اختلاف دونوں میں حدیث کو حکم پر دلالت سے معطل کرنے کے مترادف ہے، اور اس بات کو مستلزم ہے کہ نصوص میں سے کوئی چیز جس میں کسی کام پر تغلیظ وتشدید کا ذکر ہے وہ اس کام کی تحریم کا فائدہ نہ دے ، اور یہ قطعی طور پر باطل ہے۔
چوتھا جواب:
یہ معنی اس بات کو مستلزم ہے کہ احادیث میں سے کسی چیز سے استدلال نہ کیا جائے ، جب تک کہ یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اس صورت معنی پر امت نے اجماع کیا ہے، اس وقت صدر اول کے لئے ان احادیث سے استدلال جائز نہیں ہوگا ، بلکہ ہر اس شخص کو بھی جس نے خود زبان رسالت سے اس کو سنا ہے، ان سے استدلال کرنا جائز نہیں ہوگا، اور اس طرح کی