کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 70
طرح اس تحریم کے حکم یعنی مذمت وعقوبت کے تحت مجتہد کا داخل ہونا لازم نہیں آیا ، اسی طرح وعید کے حکم کے تحت اس کا دخول لازم نہیں آتا ہے، کیونکہ وعید ، مذمت اور عقوبت کی ایک قسم ہی تو ہے، پس اگر اس جنس کے تحت مجتہد کا داخل ہونا جائز ہو تو جو جواب اس کی بعض انواع کا ہے وہی بعض دوسری کا بھی ہے، اور مذمومیت کی قلت وکثرت یاعقوبت کی شدت وخفت کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے، کیونکہ اس مقام پر قلیل مذمت وعقوبت میں معذور شخص کثیر میں معذور کی طرح ہے، اس لئے کہ مجتہد کو نہ قلیل وعید لاحق ہوتی ہے نہ کثیر، بلکہ جو چیز اس کے حال کو لاحق ہوتی ہے وہ اس معنی کے ضد ہے جسے اجر وثواب کہا جاتا ہے۔ دوسرا جواب : یہ ہے کہ حکم فعل اجماعی ہوگا، یا فعل کی صفات اور امور خارجہ کی بنا پر اس میں اختلاف ہوگا، یہ امور عدم علم کے عارض ہونے اور لفظ کے عام ہونے کے اعتبار سے اضافی ہیں ، اس طور پر کہ لفظ عام سے مراد بعض اہل علم کے ساتھ خاص ہو، پس تخصیص پر دلالت کرنے والی دلیل کا مقرر ہونا ضروری ہے، چاہے یہ دلیل خطاب کو متضمن ہو، جیسا کہ بعض لوگوں کے نزدیک تاخیر بیان جائز نہیں ہے، اور چاہے خطاب پر مشتمل نہ ہو، جیسا کہ جمہور کے نزدیک وقت ضرورت تک تاخیر بیان کی گنجائش ہے (بہرحال تخصیص کی دلیل ہونا ضروری ہے۔) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عام کے ساتھ مخاطب لوگ حکم خطاب کی معرفت کے محتاج تھے، پس آکل ربا اور محلل وغیرہ کی لعنت کے بارے میں لفظ عام سے مراد اس فعل کی اجماعی طور پر تحریم ہے، اور یہ اجماع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہی معلوم ہوسکتا ہے، نیز امت نے اجماع کے تمام افراد کے بارے میں کلام کیا ہے، تو اس صورت میں لازم آیا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کلام کا بیان اس وقت تک کے لئے مؤخر فرمایا جب تمام امت اس کے تمام افراد کے بارے میں کلام کرے اور یہ جائز نہیں ہے۔