کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 69
سوال: اگر لوگ اعتراض کریں کہ تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ احادیث وعید اختلافی مواقع کو شامل نہیں ہیں ، بلکہ اتفاقی محل کو شامل ہیں ، اور جس فعل پر اس کے فاعل کو ملعون کہا گیا ہے یا اس کو اللہ کے غضب یا عقاب کی دھمکی دی گئی ہے، اس مضمون کی احادیث ایسے فعل پر محمول ہوں گی جس کی تحریم پر لوگوں کا اتفاق ہے ، تاکہ جو مجتہدین اس فعل کی حلت کا اعتقاد رکھتے ہیں ، اس وعید میں داخل نہ ہوں ، جب کہ معتقد فاعل سے زیادہ اس کا حق دار ہے، کیونکہ فاعل کو حکم دینے والا وہی معتقد ہے، پس معتقد کو لعنت یا غضب کی وعید بطور استلزام لاحق ہوئی ۔ جواب : اس کا جواب کئی طریقوں اور وجہوں سے ہے، ایک یہ کہ محل اختلاف میں نفس تحریم ثابت ہے، یا ثابت نہیں ہے، پس اگر کہیں پر محل اختلاف میں تحریم ثابت نہیں ہے، تو لازم آئے گا کہ وہ حرام نہ ہو، سوائے اس فعل کے جس کی تحریم پر علماء نے اجماع کیا ہے، اور جس فعل کی تحریم میں اختلاف ہے وہ حلال ہو، اور یہ اجماع امت کے مخالف اور دین اسلام سے بالضرورۃ معلوم البطلان ہے۔ اگر محل اختلاف میں تحریم ثابت ہے، چاہے ایک ہی صورت میں ہو، تو سوال ہے کہ مجتہدین میں سے اس فعل حرام کو حلال قرار دینے والے کے لئے محللیت اور فاعلیت کی مذمت وعقوبت لاحق ہوگی یا نہیں ؟ اگر کہا جائے کہ لاحق ہوگی ، یا یہ کہا جائے کہ لاحق نہیں ہوگی ، ہر حال میں یہ تحریم بالاتفاق حدیث وعید میں ثابت ہے، اور وعید محل اختلاف میں ثابت ہے، جیسا کہ ہم نے اس کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وعید حرام فعل کرنے والے پر آئی ہے، اور حرام کو حلال کرنے والے کی عقوبت اس کے فاعل کی عقوبت سے زیادہ بڑی اس وقت ہے جب وہ اس کا اعتقاد نہ رکھتا ہو، اور جب یہ بات جائز ہوگئی کہ اختلافی صورت میں تحریم فعل ثابت ہوگی ، اور اس کے حلال کرنے والے مجتہد کو اس حرام کے حلال کرنے کی عقوبت لاحق نہیں ہوگی ، کیونکہ وہ اس میں معذور ہے، تو فاعل کو اس فعل کی وعید بدرجہ اولی لاحق نہیں ہوگی، اور جس