کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 68
واضح رہے کہ تحریم کے لئے احکام ہیں ، جیسے گناہ، مذمت ، عقوبت اور فسق وغیرہ لازم آنا، لیکن ان کے لئے کچھ شروط اور موانع بھی ہیں ، چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کام کی تحریم ثابت ہوتی ہے، لیکن شروط کے فوت ہونے یا موانع کے موجود ہونے کی بنا پر مذکورہ احکام منتفی ہوجاتے ہیں ، یا کبھی ایسی صورت ہوتی ہے کہ ایک شخص کے حق میں خود وہ تحریم ہی منتفی ہوتی ہے، باوجودیکہ دوسرے کے حق میں ثابت ہے۔ ہم نے یہ گفتگو تکرار کے ساتھ اس لئے کیا ہے کہ اس مسئلہ میں لوگوں کے دو قول ہیں ، ایک قول عام سلف اور فقہاء کا ہے، جو یہ ہے کہ اللہ کا حکم ایک ہے، اور جس نے جائز اجتہاد سے اس کے خلاف بات کہی ہے، تو اس غلطی کے واقع ہونے پر وہ معذور ہے، یا ایک اجر کے ساتھ ماجور ہے، اس صورت حال میں تاویل کرنے والا عالم بعینہ اس فعل کو بجالایا ہے تو یہ فعل حرام ہے، لیکن تحریم کا اثر اس پر مترتب نہیں ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح کی خطا اللہ نے معاف کر دیا ہے ، اس کا فرمان ہے : ﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ [1] (اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ہے) دوسرا قول یہ ہے کہ اس مجتہد کے حق میں یہ کام حرام نہیں ہے، کیونکہ تحریم کی دلیل اس تک نہیں پہنچی ہے، پس اس کا نفس فعل حرام نہیں ہوگا، یہ اختلاف اقوال قریب قریب لفظی اختلاف کے مشابہ ہے ، اسی طرح کی بات احادیث وعید کے بارے میں محل اختلاف پائے جانے کے وقت بھی کہی جاسکتی ہے ، کیونکہ جس فعل پر وعید بیان کی گئی ہے، اس کی حرمت کے بارے میں احادیث واردہ سے استدلال پر اہل علم کا اجماع ہے، خواہ محل اتفاق ہو یا محل اختلاف ، بلکہ اختلافی جگہوں میں ان احادیث سے اکثر استدلال کیا جاتا ہے، لیکن جس وقت یہ احادیث قطعی نہ ہوں تو ان سے وعید پر استدلال کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔
[1] البقرۃ: ۱۸۶۔