کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 67
اپنے آقا کے علاوہ دوسرے کو اپنا آقا بتائے تو اس پر اللہ کی ، فرشتوں کی ، اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اللہ تعالی قیامت کے روز اس کی کوئی نفل وفرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا ) ایک اور صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ فراش کے لئے ہے‘‘[1] (یعنی بچے کا باپ یا مالک وہی شخص ہے جس کی زوجیت یا ملکیت میں اس کی ماں ہو) یہ حکم اجماعی احکام میں سے ہے۔ ہم اعتقاد رکھتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو شخص اپنے صاحب فراش باپ کے علاوہ کی طرف منتسب ہوا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں داخل ہے، اس کے باوجود غیر صحابہ میں سے بھی کسی ایک کو اس وعید کے ساتھ معین کرنا جائز نہیں ہے، صحابہ کے حق میں اس کا تصور ہی بہت دور کی بات ہے، پس یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ وعید فلاں شخص کو لاحق ہے، (مثلا یہ کہا جائے کہ فلاں ملعون ہے) کیونکہ ممکن ہے کہ ان لوگوں کو ولد فراش کے بارے میں فیصلہ نبوت اور حکم رسالت نہ پہنچا ہو، اور انہوں نے یہ بات اختیار کر لی کہ بچہ اسی شخص کا ہے جس سے بچہ کی ماں حاملہ ہوئی ہے، جیسا کہ ابوسفیان کے نطفہ سے زیاد بن ابیہ کی ماں سمیہ کا معاملہ ہے، کیونکہ اس قسم کا حکم بہت سے لوگوں پر مخفی رہتا ہے، بالخصوص ایسی حالت میں کہ عادت جاہلیت بھی ایسی ہی تھی ، سنت کی اشاعت ابھی نہیں ہوئی تھی ، یا اس کے علاوہ کوئی مانع درپیش رہا، مقتضائے وعید سے مانع امر یہ بھی ہے کہ ایسے نیک کام کئے جائیں جو سیئات کو محو کردیں ، وغیر ذلک۔ یہ باب وسیع ہے، اس میں وہ تمام امور داخل ہیں جو کتاب وسنت میں حرام قرار دیئے گئے ہیں ، لیکن بعض اعیان کو تحریم کی دلیلیں نہیں پہنچی ہوں گی ، جس کی بنا پر ان کو حلال کر دیا ہے، یا ان کے معارض دلیلیں بھی پہنچیں ، انہوں نے اپنے علم وعقل کے مطابق اجتہاد کی راہ سے ان معارضات کو راجح سمجھا ۔
[1] بخاری بیوع : ۲۰۵۳، ۲۲۱۸، مسلم الرضاع ، ۱۴۵۷، ۱۴۵۸۔