کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 66
ہونے سے عقد باطل نہیں ہوتا ، دوسرے گروہ کے نزدیک قیاس اصول یہ ہے کہ شروط مقترنہ سے خالی عقود میں احکام عقود متغیر نہیں ہوتے ہیں ، اگرچہ کسی اور طریقے سے شروط ان میں شامل ہوں ۔ ظاہر بات یہ ہے کہ اس قول کے قائلین کو تحریم کی حدیث مذکور نہیں پہنچی ، کیونکہ ان کی اولین کتابوں میں یہ حدیث شامل نہیں ہے، اگر ان کو یہ حدیث پہنچی ہوتی تو اس کو ذکر کرتے ، اور اسی کو لیتے، یا اس کے جواب میں کچھ کہتے ، دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حدیث مذکور ان کو پہنچی ہو ، لیکن اس کی تاویل کیا، یا اس کو منسوخ سمجھ لیا، یا ان کے پاس اس حدیث کے معارض کوئی دلیل رہی ، اور ہم جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے اگر مذکورہ طریقے سے فعل حلالہ کو حلال اور جائز مانا ہے ، تو ان کو یہ وعید نہیں پہنچتی ہے ، پھر بھی ہمارے لئے اس امر سے مانع نہیں ہے کہ تحلیل کو وعید مذکور کا سبب سمجھیں، اگرچہ بعض افراد کے حق میں شرط فوت ہونے یا مانع کے وجود کی بنا پر وعید موقوف رہتی ہے۔ اسی طرح زیاد بن ابیہ کے نسب کا معاملہ ہے، جو حارث بن کندہ کے فراش پر پیدا ہوا تھا، ابو سفیان کا دعوی تھا کہ زیاد ان کے نطفہ سے ہے، اس لئے حضرت معاویہ نے اس کو اپنے خاندان میں ملایا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ مَنِ ادَّعى إلى غيرِ أَبِيهِ، وَهو يَعْلَمُ أنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فالْجَنَّةُ عليه حَرامٌ ‘‘[1] ( جو شخص اپنے باپ کے علاوہ دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے ، تو اس پر جنت حرام ہے) دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مَن ادَّعى إلى غيرِ أبيه أو تولّى غيرَ مواليه فعليه لعنةُ اللّٰهِ والملائكةِ والنّاسِ أجمعينَ، لا يَقْبَلُ اللّٰهُ عنہ يومَ القيامةِ صرفًا ولا عدلًا ‘‘[2] (جوشخص اپنے باپ کے علاوہ دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرے، یا
[1] بخاری المغازی : ۴۳۲۶، فرائض : ۶۷۶۵، ۶۷۶۶، مسلم ایمان: ۶۳۔ [2] بخاری مدینہ : ۱۸۷۰، جزیۃ ، ۷۲۳۱، مسلم العتق : ۱۳۷۰۔