کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 64
مکروہ کہا ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’ الَّذِي يَشْرَبُ في آنِيَةِ الفِضَّةِ، إنَّما يُجَرْجِرُ في بَطْنِهِ نارَ جَهَنَّمَ ‘‘[1] (جو شخص چاندی کے برتن میں کھاتا پیتا ہے وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ غٹ غٹ پیتا ہے) بعض فقہاء نے اس کو مکروہ تنزیہی کے درجہ میں رکھا ہے۔ ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ إذا التقى المسلمان بسيفَيْهما، فالقاتلُ والمقتولُ في النّارِ ‘‘[2] (جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواروں سے ایک دوسرے پر حملہ کریں تو قاتل اور مقتول جہنمی ہیں ) مسلمانوں کے باہمی قتال ناحق کی حرمت کے بارے میں اس حدیث پر عمل کرنا واجب ہے، اور ہمیں معلوم ہے کہ دور اول کے مسلمانوں کی دو جنگیں جو جمل اور صفین کے نام سے مشہور ہیں ، ان میں شریک مقاتلین ہرگز جہنمی نہیں ہیں ، کیونکہ ان کے لئے قتال کے بارے میں عذر اور تاویل کا سبب تھا، اور ان کی عظیم حسنات بھی ہیں جو اس حدیث کے مقتضی پر عمل سے مانع ہیں ۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ : ’’ ثَلاثَةٌ لا يُكلِّمُهم اللهُ، ولا يَنظُرُ إليهم يَومَ القيامَةِ، ولا يُزكِّيهم، ولهم عَذابٌ أليمٌ، رَجُلٌ على فَضْلِ ماءٍ بالطَّرِيقِ يَمْنَعُ منه ابْنَ السَّبِيلِ، فیقول اللّٰہ لہ الیوم أمنعک فضلی کما منعت ما لم تعمل یداک،وَرَجُلٌ بايَعَ إِمامًا لا يُبايِعُهُ إِلّا لِدُنْيا، إنْ أَعْطاهُ رَضِيَ، وإنْ لَمْ يُعْطِهِ سَخِطَ، ورجلٌ حلفَ على سِلعةٍ بعدَ العَصرِکاذبا لقد أعطی بھا أکثر مما أعطی‘‘[3] ( تین شخص ہیں جن سے اللہ تعالی قیامت کے دن کلام نہیں کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا ، نہ
[1] بخاری الاشربۃ : ۵۶۳۴، مسلم لباس : ۲۰۶۵۔ [2] بخاری ، ایمان : ۳۱، مسلم فتن : ۲۸۸۸۔ [3] بخاری المساقاۃ : ۲۳۵۸، ۳۳۶۹، مسلم ایمان : ۱۰۸۔