کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 63
عذر ہے، اسی سے حدیث کی تاویل کئے ہیں ، یا دوسرے موانع وعید موجود ہیں ، اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ ان لوگوں نے جو شراب نوش کی ہے یہ وہ خمر نہیں ہے جس کا پینے والا ملعون ہے، کیونکہ اس کے بارے میں قول رسول عام ہونے کے سبب خمر میں اس کا شامل ہونا ناگزیر ہے، اگرچہ مدینہ منورہ میں اس وقت انگور کی شراب کا وجود نہیں تھا ۔
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب فروخت کرنے والے پر لعنت فرمائی ہے، حالانکہ آپ کے بعض اصحاب نے بادہ فروشی کیا، یہاں تک کہ یہ معاملہ حضرت عمر کے پاس پہنچا ، انہوں نے کہا : ’’قاتل اللّٰہ فلانا ألم یعلم أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: قاتل لعَنَ اللَّهُ اليَهودَ حرِّمت عليهمَ الشُّحومَ فباعوها وأَكلوا أثمانَها (أثمانھا) ‘‘ [1]
(اللہ تعالی فلاں شخص کو برباد کرے ، کیا اسے معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی یہود پر لعنت فرمائے، ان پر چربی حرام کی گئی تو اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت کو خورد ونوش کے لئے استعمال کیا)۔
حضرت عمر کو اس وقت یہ بات معلوم نہیں تھی کہ شراب فروخت کرنی حرام ہے، اس کے باوجود ان کو اس بات سے کوئی مانع نہیں ہوا کہ اس گناہ کی سزا بیان کریں ، تاکہ وہ شخص اور دوسرے اس کا علم ہونے کے بعد اس سے باز رہیں ۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب نچوڑنے والے اور نچوڑ وانے والے پر لعنت فرمائی ہے، اور بہت سے فقہاء نے دوسرے کے لئے انگور کا عرق نچوڑنا جائز کہا ہے ، چاہے وہ جانتا ہو کہ اس دوسرے شخص کی نیت اس عرق انگور سے شراب سازی ہے، حالانکہ حدیث مذکور شراب نچوڑنے والے کی لعنت پر نص ہے، یہاں بھی وہی قاعدہ جاری ہوگا کہ مانع کے سبب معذور شخص کے حق میں حکم جاری نہیں ہوتا ہے۔
اسی طرح چند صحیح حدیثوں میں واصلہ اور مستوصلہ (اپنے بال میں دوسرے کا بال ملانے لگانے اور لگوانے والی عورت ) پر لعنت آئی ہے،[2] بعض فقہاء نے اس کو صرف
[1] بخاری بیوع : ۲۴۲۲ ، مسلم المساقاۃ : ۱۵۸۳ ۔
[2] بخاری لباس : ۵۹۳۳، مسلم ، لباس : ۲۱۲۲۔