کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 62
’’ من أتى امرأةً في دُبرِها فھو کافر بما نُزِّلَ على محمدٍ ‘‘[1] ( جس نے عورت کی دبر میں جماع کیا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ حکم کا منکر ہے) اس جگہ میں کسی مسلمان کو حق نہیں پہنچتا کہ اس بحث میں پڑ کر یہ کہے کہ فلاں فلاں لوگ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ چیز کے منکر وکافر تھے۔ اسی طرح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ شراب کے تعلق سے دس لوگوں پر لعنت فرمائی ہے، جو شراب پینے والے ، شراب بنانے والے ، شراب کشید کرنے والے وغیرہ ہیں ۔[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ كلُّ شرابٍ أسكَر فهوخمر‘‘ دوسری حدیث میں ہے: ’’ كلُّ مُسكِرٍ خَمرٌ ‘‘[3] ( ہر نشہ آور چیز خمر (شراب) ہے۔) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کے درمیان منبر پرخطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’ الخمرُ ما خامرَ العقلَ ‘‘[4] (جو چیز عقل پر پردہ ڈال دے خمرہے)۔ اللہ تعالی نے خمر ( شراب) کی حرمت نازل فرمائی ہے، اور اس کے نزول کا سبب یہ تھا کہ اس وقت مدینہ منورہ میں جو شراب پی جاتی تھی وہ صرف کھجور کی شراب ہوتی تھی، مدینہ والوں کو شراب انگور یا اور کوئی شراب میسر نہ تھی ، اس سے کوفہ کے چند اہل علم وعمل افاضل امت نے یہ اعتقاد رکھا کہ شراب صرف انگور سے کشید کی ہوئی ہوتی ہے جو حرام ہے، باقی اس کے علاوہ کھجور وغیرہ کی نبیذ (عرق ) حرام نہیں ہے، مگر اتنی مقدار جو نشہ لائے ، ان لوگوں نے اس نوع کی شراب کو حلال سمجھا اور نوش بھی کیا، یہاں پر کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ کہے کہ یہ شراب پینے والے حدیث میں مذکور وعید کے تحت داخل ہیں ، اس لئے کہ ان کے لئے
[1] ابوداود میں یہ حدیث ابو ہریرہ سے بایں الفاظ مروی ہے: ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ملعون من أتی امرأۃ فی دبرھا۔ ابوداود ، نکاح: ۲۱۶۲، وفی روایۃ ’’من أتی کاھنا ۔۔۔ أو أتی امرأۃ فی دبرھا فقد بریٔ مما أنزل اللہ علی محمد‘‘۔ طب : ۳۹۰۴، وأخرجہ الترمذی بلفظ: ’’فقد کفر بما أنزل علی محمد‘‘ ترمذی ، طہارۃ : ۱۳۵، صحیح۔ [2] صحیح الجامع الصغیر: ۵۰۹۱۔ [3] مسلم الاشربۃ : ۲۰۰۳ ۔ [4] بخاری تفسیر : ۴۶۱۹، ابو داود الاشربۃ : ۳۶۶۹ ۔