کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 61
’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آكلَ الرِّبا وموكلَه وكاتبَهُ وشاهدَيه ‘‘[1]
( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے )۔
نیز کئی طرق سے مروی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دوصاع کو ایک صاع کے بدلے نقدا فروخت کرنا عین ربا ہے۔‘‘ [2]
ایسے ہی دوسری حدیث میں ہے : ’’ البُرُّ بالبُرِّإلا هاءَ وهاءَ ‘‘ الحدیث[3]
ان حدیثوں میں ربا کی دونوں قسمیں یعنی ربا فضل اور ربا نسیئہ دونوں داخل ہیں (پس ہر نوع کا مرتکب لعنت کا مصداق ہوگا )۔
جن لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ’’ لا رِبا إلّا في النَّسيئةِ ‘‘[4] پہنچی (یعنی صرف ادھار کی صورت میں ربا ثابت ہوتا ہے) ان لوگوں نے دو صاع کو ایک صاع کے بدلے نقداً فروخت کرنا حلال قرار دیا ہے، ان لوگوں کی ایک تعداد ہے، جس میں ابن عباس اور ان کے اصحاب ہیں ، جیسے ابو الشعثاء، عطاء ، طاؤس ، سعید بن جبیر اور عکرمہ وغیرہم ، جو اہل مکہ مکرمہ کے اعیان میں سے ہیں ، اور امت میں علم وعمل کے اعتبار سے برگزیدہ ہستیاں ہیں ، پس کسی مسلمان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان میں سے یا ان کے قدم پر چلنے والوں میں سے بایں صورت کہ اس کی تقلید جائز ہو، کسی معین شخص کے بارے میں یہ اعتقاد رکھے کہ سود کھانے والے کی لعنت میں گرفتار ہیں ، کیونکہ ان لوگوں نے فی الجملہ جائز تاویل کے ذریعہ اس کام کو مباح سمجھا ہے۔
اسی طرح دُبر میں جماع کا مسئلہ ہے، اس کے بارے میں اہل مدینہ منورہ کے فضلاء کی ایک جماعت سے یہی حال منقول ہے ، حالانکہ امام ابو داود نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
[1] مسلم ، المساقاۃ : ۱۵۹۷، ۱۵۹۸، ابو داود، بیوع : ۳۳۳ ۳۔
[2] مسلم المساقاۃ : ۱۵۹۴۔
[3] بخاری بیوع : ۲۱۷۴، مسلم المساقاۃ : ۱۵۸۶۔
[4] بخاری بیوع : ۲۱۷۸ ، مسلم المساقاۃ : ۱۵۹۶۔