کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 60
خطا سے خوف کا مقابل ہوگا تو اس کے اعتقاد کو واجب کرنے والی دلیل اور اس اعتقاد پر آمادہ کرنے والی نجات یہ دو دلیلیں معارض سے سالم باقی رہتی ہیں ۔ یہ کہنا جائز نہیں ہوسکتا کہ وعید پر دلیل قطعی نہ ہونا وعید کے عدم پر دلیل ہے، اس کو اس طرح سمجھیں کہ مصحف میں مذکورہ قراء ات سے زائد قراء ت پر خبر متواتر کا نہ ہونا زائد قراء ت کے نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے، کیونکہ عدم دلیل عدم مدلول علیہ پر دال نہیں ہوتی ہے، اور جو شخص امور علمیہ میں سے کسی امر کی نفی پر یقین اس بنا پر رکھتا ہے کہ اس کے وجوب پر دلیل قطعی نہیں ہے، جیسا کہ متکلمین کی ایک جماعت کا طریقہ ہے، تو وہ کھلی ہوئی غلطی کررہا ہے، لیکن جب ہم جانتے ہیں کہ وجود شیٔ دلیل قطعی کو مستلزم ہے، اور تحقیق کے بعد دلیل نہیں ملی ، تو ہم نے یقین کر لیا کہ مستلزم شیٔ کا وجود نہیں ہے، کیونکہ عدم لازم عدم ملزوم پر دلیل ہوتا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ اللہ کی کتاب اور اس کے دین کو نقل وبیان کے دواعی بے شمار ہیں ، اور امت کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے کہ حاجت عامہ کی کوئی چیز جس کے نقل وبیان کی وہ محتاج ہے اسے چھپائے ، بریں بنا جب کوئی چیز بنقل عام منقول نہیں ہے، جیسے چھٹویں نماز اور وہ دوسری سورتیں جن کے شیعہ حضرات قائل ہیں ، تو ہم نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ اس قسم کی چیزوں کا کوئی وجود نہیں ہے، واضح رہے کہ وعید کا باب اس سے مختلف ہے، کیونکہ جو وعید کسی کام پر آئی ہے اس میں یہ واجب نہیں ہے کہ نقل متواتر سے منقول ہو، جس طرح اس کام کے حکم میں یہ واجب نہیں ہے۔ احادیث وعید واجب العمل ہیں یہیں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ وعید کو متضمن احادیث اپنے مقتضیات میں واجب العمل ہیں ، ساتھ ہی یہ اعتقاد بھی رکھنا ہے کہ اس کا فاعل وعید مذکور کا مصداق ہے، لیکن اس کو وعید کا لاحق ہونا چند شروط پر موقوف ہوگا، کیونکہ وعید کے موانع بھی ہیں ، اس قاعدہ کی وضاحت کے لئے مثالیں ملاحظہ ہوں ۔ صحیح حدیث میں ہے: