کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 59
حیثیت سے کوئی فرق نہیں ہے کہ یہ دونوں خبریں اللہ تعالی کی جانب سے ہیں ، جیسا کہ اس کی طرف سے اول کے بارے مطلق دلیل سے خبر دینا جائز ہے، اسی طرح دوسری کے بارے میں بھی خبر دینا درست ہے، بلکہ اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ وعید کے بارے میں اس خبر پر عمل زیادہ مؤکد ہے، تو اس کا یہ کہنا صحیح ہوگا۔ اسی لئے علماء نے احادیث ترغیب وترہیب کی اسانید میں تسہیل کا راستہ اختیار کیا ہے، اور احادیث احکام کی اسانید میں اس طرح کی سہل انگاری ونرمی سے پرہیز کیا ہے، کیونکہ وعید کا اعتقاد انسان کو اس کام کے ترک پر آمادہ کرتا ہے، اس لئے کہ اگر یہ وعید حق وسچ ہے، تو اس کام کے ترک کی صورت میں اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے، اس کی غلطی اگر ہے تو یہ ہے کہ اس نے اس فعل پر زیادہ سزا ہونے کا اعتقاد کیا ہے، جس طرح کم سزا کا اعتقاد رکھنے کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ غلطی پر ہو۔ اسی طرح اگر کوئی شخص عقوبت کے بارے میں بحیثیت نفی یا اثبات کوئی اعتقاد نہیں رکھتا ہے تو اس کی وجہ سے کبھی غلطی میں پڑ جائے گا، اور یہ اعتقادی غلطی وعید والے کام کو اس کی نظر میں آسان اور معمولی کر دکھائے گی، پھر وہ اس کام میں مبتلا ہو جائے گا، اور زائد سزا کا سزوار ٹھہرے گا، بشرطیکہ وہ عقوبت وسزا ثابت ہو، یا اس سزا کے مستحق ہونے کا سبب اس کے ساتھ قائم رہا ہو، بہرحال اعتقاد کے بارے میں دونوں صورتیں یعنی وعید کا اعتقاد اور عدم اعتقاد خطا ہونے میں برابر ہیں ، البتہ اعتقاد وعید کی صورت میں عذاب سے نجات اقرب ہے، پس یہ صورت اولی ہوگی، اسی دلیل سے عام علماء نے منع کی دلیل کو اباحت والی دلیل پر ترجیح دیا ہے، اور بہت سے فقہاء نے اسی معنی کی بنا پر بہتیرے احکام میں احتیاط کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ فعل میں احتیاط جس فعل کے بارے میں وعید کا ذکر ہے اس میں احتیاط کی راہ پر چلنا ایک مستحسن امر ہے، اس پر عقلاء کا اجماع ہے، اور جب اعتقاد وعید کی نفی میں خطا کا خوف عدم اعتقاد میں