کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 58
وعید کا تعلق امور علمیہ سے ہے علماء مذکورین کی دلیل یہ ہے کہ وعید ایک علمی امر ہے، وہ ایسی دلیل سے ثابت ہوتی ہے جو علم کا فائدہ دے، نیز جب کوئی کام اس نوع کا ہو کہ اس کے حل میں اجتہاد کی گنجائش ہو تو اس کام کرنے والے کو وعید لاحق نہیں ہوگی، ان لوگوں کے قول پر تحریم افعال میں احادیث وعید مطلقاً لائق استدلال ہیں ، رہا ان سے وعید کا ثبوت تو اسی وقت ہوسکتا ہے کہ ان کی دلالت قطعی ہو۔ اسی قبیل سے اکثر علماء کا ان قراء ات قرآن پر استدلال ہے جو بعض صحابہ سے صحت کے ساتھ منقول ہیں ، حالانکہ وہ قراء ات مصحف عثمانی میں نہیں ہیں ، یہ قراء ات علم وعمل کو متضمن ہیں ، گو صحیح خبر واحد سے ثابت ہیں ، اسی لئے علماء نے اثبات عمل میں ان سے استدلال کیا ہے، اگرچہ ان سے قرآن کا اثبات نہیں آیا ہے، کیونکہ یہ امور علمیہ میں سے ہے، جو یقین کے سوا کسی اور طریقے سے ثابت نہیں ہوتا ہے۔ اکثر فقہاء کے نزدیک یہ احادیث آحاد ان تمام چیزوں میں حجت ہیں جو عمل اور وعید کو متضمن ہیں ، یہی عام سلف کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور ان کے تابعین نے ہمیشہ ان احادیث سے وعید کا اثبات کیا ہے، جس طرح انہوں نے ان سے عمل کا اثبات کیا ہے، انہوں نے تصریح کیا ہے کہ ان احادیث میں مذکورہ وعید اس فعل کے کرنے والے کو بالجملہ لاحق ہوگی، یہ بات ان کی حدیثوں اور فتووں میں جابجا پھیلی ہوئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وعید بھی احکام شرعیہ میں سے ایک حکم ہے، اس کا ثبوت کبھی دلائل ظاہرہ سے اور کبھی دلائل قطعیہ سے حاصل ہوتا ہے۔ مطلوب وعید: وعید سے مطلوب یقین کامل نہیں ہے، بلکہ اس سے ایسا اعتقاد مطلوب ہے جس میں یقین اور ظن غالب دونوں داخل ہوں ، جیسا کہ احکام عملیہ میں یہی معنی مطلوب ہے، مثلا انسان کا یہ اعتقاد کرنا کہ اللہ تعالی نے اس کام کو حرام کیا ہے، اور اس کے فاعل کو مجمل سزا سے ڈرایا ہے، یا یہ اعتقاد کرنا کہ اللہ تعالی نے اس کو بھی حرام قرار دیا ہے، اور اس کے ارتکاب پر معین سزا کی وعید سنائی ہے، ان دونوں اعتقادات میں اس