کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 57
دلالت قطعی: اہل علم کبھی خبر کے قطعی الدلالۃ ہونے کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں ، اور اس کی بنا اس اختلاف پر ہوتی ہے کہ یہ حدیث نص ہے یا ظاہر؟ اگر ظاہر ہے تو اس میں نافی احتمال مرجوح ہے یا غیر مرجوح؟ یہ باب بہت وسعت رکھتا ہے، کیونکہ جن احادیث کے بارے میں علماء کی ایک جماعت قطعی الدلالۃ ہونے کی قائل ہے اور دوسرے اس کے قائل نہیں ہیں ، تو قائلین کی بنیاد کبھی اس امر پر ہوتی ہے کہ ان کے علم کے مطابق حدیث اس معنی کے سوا دوسرا احتمال نہیں رکھتی ہے، یا حدیث کو دوسرے معنی پر حمل کرنا ممتنع ہے، یا ان کے علاوہ دلیلیں ہو سکتی ہیں جو قطعیت کی موجب ہوتی ہیں ۔
دلالت غیر قطعی: رہی حدیث کی دوسری قسم جو ظاہر غیر قطعی الدلالۃ سے عبارت ہے، تو معتبر علماء کے نزدیک بالاتفاق احکام شرعیہ میں اس پر عمل کرنا واجب ہے، یہ ظاہر حدیث اگر وعید وغیرہ جیسے علمی حکم کو متضمن ہے، تو اس میں علماء کا اختلاف ہے، فقہاء کے ایک گروہ کا مذہب یہ ہے کہ جو خبر واحد عدل کسی فعل پر وعید کو متضمن ہو وہ اس فعل کی تحریم کے بارے میں واجب العمل ہے، لیکن وعید کے بارے میں اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا، (یعنی حرمت فعل ثابت ہوگی، اور وعید لازم نہیں ہوگی ) مگر اس صورت میں کہ خبر قطعی ہو۔
اسی قسم کا یہ مسئلہ بھی ہے کہ اگر متن قطعی ہو، لیکن اس کی دلالت ظاہر (غیرقطعی) ہے، پھر بھی اس پر عمل واجب ہوگا، اسی پر حضرت عائشہ کا یہ قول محمول ہے۔
’’ أبلِغي زيدًا أنَّه قد بطَل جهادُهُ مع رسولِ اللّٰهِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، إلا أن يتوبَ ‘‘
(زید کو خبردار کردو کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے جہاد کو باطل کردیا ، مگر یہ کہ وہ توبہ کرلیں )
علماء کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے وعید کا ذکر اس لئے کیا کہ وہ اس کی عالمہ تھیں ، اور ہم ان کی خبر پر تحریم فعل کے بارے میں عمل تو کرتے ہیں ، لیکن ان کی ذکر کردہ وعید کے قائل نہیں ہیں ، کیونکہ یہ حدیث ہمارے پاس خبر واحد کے ذریعہ پہنچی ہے۔