کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 56
اس مسئلہ کی بنیاد اس بات پر ہے کہ خبر کے مفید علم ہونے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں ، کبھی خبر اپنے مخبرین کی کثرت کی وجہ سے علم کا فائدہ دیتی ہے، کبھی مخبرین کی صفات کی بنا پر ، کبھی نفس خبر ہی مفید علم ہوتی ہے، کبھی مخبرین کے نفس ادراک کی راہ سے اور کبھی مخبر بہ کی کیفیت کے لحاظ سے خبر علم کا فائدہ دیتی ہے، یہی وہ وجوہ وجہات ہیں جن سے کبھی تھوڑے سے لوگوں کی خبر لوگوں کے لئے مفید علم ہوجاتی ہے، کیونکہ ان کا حفظ ودیانت خبر کو کذب وخطا سے محفوظ رکھتی ہے، جب کہ دوسرے جو اس عدد قلیل والوں سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں ان کی خبر علم کا فائدہ نہیں دیتی ہے، یہ ایسی حقیقت ہے کہ جو ہر شک وشبہہ سے بالا ترہے ؎
وھــذا الحق لیس بہ خفاء
فدعنی عن بینات الطریق
(یہ امر حق بالکل واضح ہے، لہذا اسی کو لازم پکڑو اور چھوٹے چھوٹے راستوں کو چھوڑ دو )
جمہور فقہاء ، محدثین، متکلمین کے سارے گروہ اور متکلمان کی ایک جماعت کا قول یہی ہے، بعض فقہاء کا خیال ہے کہ جن تعداد کے لوگوں کی خبر کسی ایک معاملے میں مفید علم ہوئی ہے، اس جیسی عدد والوں کی خبر ہر معاملے میں علم کا فائدہ دیتی ہے، یہ مذہب قطعی طور پر باطل ہے، اور یہ جگہ اس کے بیان کے لائق نہیں ہے ۔
رہی خبر کے افادۂ علم میں مخبرین سے خارج قرائن کی تاثیر تو ہم اس کو ذکر نہیں کر رہے ہیں ، کیونکہ یہ قرائن کبھی خبر سے الگ ہوتے ہوئے بھی علم کا فائدہ دیتے ہیں ، اور جب بذات خود مفید علم ہوئے تو اس کی ضرورت نہیں رہی کہ ان کو علی الاطلاق تابع خبر بنایا جائے، جیسا کہ خبروں کو قرائن کا تابع نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ خبر اور قرینہ میں سے ہر ایک کبھی علم کا اور کبھی ظن کا ذریعہ ہوتی ہے، اگرچہ ایسا اتفاق کیوں نہ پیش آئے کہ علم کا موجب دونوں ہوں ، یا ان میں سے ایک ہو، یا موجب ظن دوسرا ہو، جو لوگ اخبار (احادیث) کے زیادہ جان کار ہوتے ہیں وہ کبھی ایسی خبروں کی سچائی کا یقین کرتے ہیں جن کی سچائی پر ان سے کم تر علم والے یقین نہیں رکھتے ہیں ۔