کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 55
تلاش ودریافت کریں ، یہ اعتقاد کافی نہیں ہے کہ امت کے حق میں احادیث پر عمل اور ان کی تبلیغ واجب ہے ، اس امر میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صحیح احادیث کی تلاش وجستجو جاری رہنی چاہئے۔ متروک احادیث کی دو قسمیں ایسی احادیث جو ائمہ وفقہاء سے ترک ہوئی ہیں دو طرح کی ہیں ، ایک یہ کہ حدیث کی دلالت اس طور پر قطعی ہے کہ اس کی سند اور متن دونوں قطعی ہوں ، یہ قسم اس جنس سے ہے کہ جس کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، اور اسی صورت کا اس سے ارادہ کیا ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ حدیث کی دلالت ظاہر اور غیر قطعی ہو، پس پہلی قسم کی احادیث کے مطلوب پر علمی وعملی اعتبار سے اعتقاد رکھنا واجب ہے، اس میں اہل علم کے درمیان مجموعی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہے، اتنی بات ہے کہ بعض احادیث میں یہ اختلاف کرتے ہیں کہ وہ قطعی السند اور قطعی الدلالۃ ہے یا نہیں ؟ مثلاً خبر واحد جسے امت میں تلقی بالقبول اور تصدیق حاصل ہے، یا اس پر عمل کے بارے میں امت نے اتفاق کیا ہے، اس طرح کی خبر واحد میں علماء نے اختلاف کیا ہے ، عام فقہاء اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ خبر مفید علم ہے، متکلمین کا ایک گروہ اس کے مفید علم نہ ہونے کا قائل ہے۔ اسی طرح وہ حدیث جو متعدد طرق سے مروی ہے، اس کے بعض طرق بعض کی تصدیق کرتے ہیں ، اور اس کے راوی مخصوص لوگ ہیں ، تو یہ حدیث اس عالم کے حق میں علم یقین کا فائدہ دے گی جو ان طرق کا ، رواۃ کے احوال کا اور اس حدیث کو احاطہ کئے ہوئے قرائن کا جان کار ہو، اگرچہ اس حدیث کا علم ایسے شخص کو حاصل نہیں ہوتا ہے جو ان معلومات میں اس کا شریک نہیں ہے، اسی لئے حدیث کے بلندپایہ علماء جو اس حدیث کی معرفت میں متبحر وماہر ہوتے ہیں ان کو اس نوع کی احادیث کا یقین تام حاصل ہوتا ہے، ان کے برخلاف جو اہل علم صدق حدیث کا علم ظن بھی نہیں رکھتے ان کو اس کے صدق کا یقین کیا ہوگا؟