کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 54
فهُوَ فِي النارِ ورجُلٌ قضى للناسِ على جهْلٍ فهُوَ في النارِ ‘‘[1]
(قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں ، ان میں ایک قسم جنتی ہے، اور دو جہنمی ہیں ، جنتی وہ قاضی ہے جس نے حق کو سمجھا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا، لیکن جس نے حق کو جانتے ہوئے اس کے خلاف فیصلہ کیا وہ جہنمی ہے ، اسی طرح جس نے حق وناحق کو جانے بوجھے بغیر فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے)۔
یہی حکم مفتیوں کے لئے بھی ہے۔
شخص معین کو وعید لاحق ہونے کے موانع
شخص معین کو بھی وعید لاحق ہونے کے موانع ہیں ، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے، پس امت کے نزدیک بعض نامور ولائق ستائش علماء کے بارے میں یہ فرض کیا جائے کہ ترک حدیث کے استدلال میں ان سے کوتاہی واقع ہوئی ہے، اور انہوں نے وعید والے کام کئے ہیں ، اگرچہ یہ کوتاہی اور قصور ان سے بعید اور غیر واقع ہے، تاہم اسباب مذکورہ میں سے کوئی سبب رہا ہوگا، اور اگر یہ غلطی وکوتاہی ان سے واقع میں صادر ہوجائے تو یہ ان کی امامت میں علی الاطلاق قادح نہیں ہوگی، کیونکہ ہم کسی کی عصمت کے معتقد نہیں ہیں ، بلکہ ان سے گناہ کا وقوع جائز سمجھتے ہیں ، اس کے باوجود ہم ان کے لئے درجات عالیہ کی امید رکھتے ہیں ، اس لئے کہ اللہ تعالی نے ان کو خصوصی طور پر اعمال صالحہ اور احوال پاکیزہ سے نوازا ہے۔
یہ ہستیاں گناہوں اور غلطیوں پر اصرار نہیں کرتی تھیں ، جس طرح کہ ان کے پیروکار حجت ظاہر ہونے کے بعد بھی اڑے جمے رہتے ہیں ، جب کہ ان کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے درجہ سے بالا تر نہیں ہے، حالانکہ فتاوی ، قضایا اور ان کے درمیان قتل وقتال سے متعلق ان کے اجتہاد کے بارے میں ہمارا قول وہی ہے۔
یہ جان لینا کہ مذکورہ اسباب کی بنا پر تارک حدیث معذور بلکہ ماجور ہے، اس امر سے مانع نہیں ہے کہ امام یا عالم کے قول کے معارض صحیح احادیث ہمیں معلوم نہیں ہیں تو ان کی
[1] ابو داود ، الأقضیۃ : ۳۵۷۳، صحیح۔