کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 53
(۳)عالم جس چیز سے حجت پکڑ رہا ہے اس سے استدلال میں کوئی کوتاہی واقع ہو جائے ، مثلا اس کی نظر حجت کی انتہاء تک پہنچنے سے پہلے ہی اس مسئلہ کا قائل ہو جائے ، یا اس پر کوئی عادت غالب آجائے، یا استدلال میں پوری طرح غور وفکر کرنے سے کوئی غرض مانع ہو جائے، اور وہ اس کے معارض میں نظر وفکر کرنے سے باز رہے ، گو اس نے مسئلہ کو اجتہاد واستدلال کے بغیر نہیں بیان کیا ہے، کیونکہ اجتہاد کی جس حد تک پہنچنا واجب ہے ، بعض دفعہ مجتہد اس پر پورے طور پر رسائی نہیں پاتا ہے ، اسی لئے علماء اس قسم کے اجتہادی مسائل میں خوف زدہ رہتے تھے، ان کو یہ اندیشہ ہوتا تھا کہ کہیں اس مخصوص مسئلہ میں ان کو معتبر اجتہاد حاصل نہ رہا ہو، اور وہ گناہ کے مرتکب ہوجائیں ، البتہ اس گناہ کی سزا اس گنہگار کو ملتی ہے جس نے اس گناہ سے توبہ نہیں کی ہے، اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ استغفار ، احسان ، بلاء ومصیبت ، شفاعت اور رحمت الہی کے سبب وہ گناہ درگذر ہوجاتا ہے۔
لیکن جس شخص پر خواہش نفس غالب ہوتی ہے ، اس کو گناہ زمین پر ڈال دیتا ہے ، یہاں تک کہ وہ جانے پہچانے باطل کی طرف پلٹ جاتا ہے، پس ایسا شخص اس حکم میں داخل نہیں ہے ؎
دیدہ بودم روے تو دانستہ بودم خوے تو
دیدۂ ودانستہ خود را در بلا انداختم
(میں تمہاری صورت اور سیرت سے خوف واقف تھا، پھر بھی جانتے بوجھتے اپنے کو مصیبت میں ڈال دیا)
اسی طرح جو شخص کسی قول کے صواب یا خطا کا یقین رکھتا ہے، لیکن اس کے اثبات یا نفی کے دلائل کو پہچانتا نہیں ہے، تو وہ خواہش کا مغلوب اور یہ یقین رکھنے والا دونوں جہنمی ہیں ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’ القضاةُ ثلاثةٌ واحدٌ في الجنةِ واثنانِ في النارِ فأمّا الذي في الجنةِ فرجلٌ عرفَ الحقَّ فقضى بهِ ورجلٌ عرفَ الحقَّ فجارَفی الحکم