کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 51
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلام کا معنی نہ سمجھنے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، اور اس فعل پر ان کے مفطر صوم ہونے کی مذمت نہیں فرمائی ، حالانکہ یہ اکبر کبائر میں سے ہے۔
اس کے برخلاف ان لوگوں کی سخت مذمت فرمائی جنہوں نے ایک زخمی سروالے کو سردی میں وجوب غسل کا فتوی دیا، اس نے غسل کیا اور مرگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ قَتَلُوهُ قتلَهُمُ اللّٰهُ، ألا سَأَلُوا إذا لمْ يَعلَمُوا فإنَّما شِفاءُ العِيِّ السًّؤالُ ‘‘[1] (ان مفتیوں نے اس کو مار ڈالا، اللہ تعالی ان کو ہلاک کرے ، جب انہیں مسئلہ معلوم نہیں تھا تو دوسروں سے پوچھا کیوں نہیں ؟ کیونکہ عاجز شخص کا علاج اس کا سوال کرنا ہے)
یہ سخت ارشاد اس بنا پر تھا کہ ان کی یہ غلطی غیر اجتہادی تھی، اور وہ علم والے نہیں تھے۔
اسی طرح جب اسامہ بن زید نے ایک غزوہ میں لا الہ الا اللہ کے قائل کو قتل کردیا، باوجودیکہ اس کو قتل کرنا حرام ہے ،[2] پھر بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ پر قصاص یا دیت یا کفارہ واجب نہیں فرمایا، کیونکہ ان کے اجتہاد واعتقاد میں اس کا قتل جائز تھا، انہوں نے یہ سمجھا کہ اس طرح کا اسلام صحیح نہیں ہے، سلف اور جمہور فقہاء نے اسی پر عمل کیا ہے، جیسا کہ باغیوں اور شرپسندوں کا اچھے لوگوں کے قتل کو تاویلاً مباح سمجھنا جائز ہے، اس میں قصاص یا دیت یا کفارہ کی ضمان نہیں ہے، اگر چہ ان لوگوں کا قتل وقتال حرام ہے۔
حرام کا ارتکاب کرنے والے کو وعید کے لاحق ہونے کے بارے میں جو شرط ہم نے ذکر کی ہے، ہر خطاب میں اس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس کا علم دلوں میں جاگزیں ہے، جیسا کہ عمل پر انعام کا وعدہ اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ خالص اللہ عز وجل کے لئے ہو اور ارتداد کی وجہ سے ضائع نہ ہوا ہو، لیکن یہ شرط حدیث وعد میں مذکور نہیں ہوتی ہے، اور جس جگہ موجب وعید کا قیام پوشیدہ ہوتا ہے، وہاں پر مانع کی بنا پر حکم مختلف ہوتا ہے۔
[1] احمد : ۱ /۳۷۰، ابو داود ، الطہارۃ: ۳۳۶، ابن ماجہ الطہارۃ: ۱ / ۱۸۹۔
[2] بخاری ، المغازی : ۴۲۶۹، مسلم الایمان : ۹۶۔