کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 50
کہ نماز کا وقت ہوگیا، ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر بنی قریظہ ہی میں نماز پڑھیں گے ، دوسروں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ مراد نہیں ہے، انہوں نے راستے ہی میں نماز ادا کرلی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں جماعتوں میں سے کسی کو سرزنش نہیں فرمائی، اور نہ کسی پر نکیر کی ۔[1] پہلی جماعت والوں کا استدلال عموم خطاب سے تھا، انہوں نے وقت فوت ہو جانے کو بھی داخل عموم سمجھا، دوسرے گروہ کی دلیل یہ تھی کہ یہ صورت عموم سے خارج ہے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بنی قریظہ کے پاس ہمیں جلد پہنچنا ہے ۔ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ اس میں فقہاء کا اختلاف مشہور ہے کہ عام کی تخصیص قیاس سے ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ بہرحال جن لوگوں نے راستے میں نماز ادا کی وہ دوسروں کی نسبت زیادہ صواب پر تھے، یہ اس بات پر دلیل ہے کہ ظاہریت کو سخت غلو پر ترجیح حاصل ہے، اسی طرح کا ایک قصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع کھجور کو ایک صاع کے بدلے فروخت کردی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس کرنے کا حکم فرمایا کہ یہ ربا ہے ،[2] لیکن ان کو لعن طعن اور ڈانٹ پھٹکار نہیں کیا، کیونکہ حضرت بلال اس کی حرمت سے ناواقف تھے۔ اسی طرح عدی بن حاتم اور صحابہ کی جماعت نے آیت : ﴿ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ﴾ [3] کے ظاہر کا اعتبار کرکے اس سے سیاہ وسفید دھاگا سمجھا، یہاں تک کہ بعض صحابہ اپنے سرہانے تکیہ کے پاس سفید اور سیاہ دھاگے رکھ کر کھاتے پیتے تاآنکہ ایک دوسرے سے نمایاں ہو جائے ، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ إنَّ وِسادَتكم لَعَريضٌۃ، وإنما هو بياضُ النّهارِوسوادُ الليلِ ‘‘[4] (تمہارا تکیہ چوڑا ہے ( یعنی تم نے کلام کا معنی سمجھا نہیں ) آیت سے مراد دن کی سفیدی (صبح صادق ) او رات کی سیاہی (صبح کاذب ) ہے۔)
[1] بخاری ، الخوف : ۹۴۶، مسلم ، الجہاد: ۱۷۷۰ ۔ [2] بخاری ، الوکالۃ : ۲۳۱۲ ، مسلم ، المساقاۃ : ۱۵۹۴۔ [3] البقرۃ : ۱۸۷۔ [4] بخاری ، صوم : ۱۹۱۶، التفسیر: ۴۵۰۹، ۴۵۱۰، مسلم صیام : ۱۰۹۰ ۔