کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 49
پھر ہم نے وہ فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، اور ہر ایک کو حکم اور علم عطا کیا)۔
اس جگہ سلیمان علیہ السلام کو فہم کے ساتھ مختص فرمایا ہے، اور دونوں (داود وسلیمان) کے علم وحکم کی تعریف فرمائی ہے، یہاں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ایک وقت وزمانے میں کئی مجتہد کا اکٹھا ہونا اور ایک کا دوسرے سے علم وفضل میں کم وبیش ہونا جائز ہے۔
صحیحین میں عمرو بن العاص سے مرفوعا روایت ہے:
’’ إذا اجتَهدَ الحاكمُ فأصابَ فلَهُ أجرانِ، وإذا اجتَهدَ (وإذا حكم فاجتَهَد) ثم أخطأَ فلَهُ أجرٌ ‘‘[1] (حاکم جب فیصلہ کے وقت اجتہاد کرے پھر درست بات تک پہنچ جائے تو اس کے لئے دو اجر ہے، اگر اجتہاد میں خطا کھا گیا تو اس کے لئے ایک اجر ہے) ۔
اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ مجتہد کو اس کی غلطی کے باوجود ایک اجر ملے گا، کیونکہ اس نے اپنے کام میں بھرپور کوشش ومحنت کی ہے، اس بنا پر اس کی غلطی بھی معاف کردی گئی ہے، اس لئے کہ تمام اشیاء احکام میں صواب کی دریافت متعذر اور دشوار ہے، اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿ مَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ﴾ [2] ( اللہ تعالی نے دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ۔)
دوسری جگہ فرمایا ہے:
﴿ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ [3] (اللہ تعالی تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا )۔
صحیحین میں مرفوعا روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے روز اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں کا کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ میں ، یہ قافلہ ابھی راستے میں تھا
[1] بخاری ، الاعتصام : ۷۳۵۲، مسلم الاقضیۃ : ۱۷۱۶۔
[2] الحج: ۷۸۔
[3] البقرۃ: ۱۸۵۔