کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 48
سے ہے جن کے ترک حدیث کے اسباب ہم نے بیان کئے ہیں ، بلکہ صحیح حدیث معلوم ہونے کے بعد اس کا تارک لائق سزا ہے، کیونکہ اس نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنایا ہے، یا ما أنزل اللّٰہ کے خلاف حکم دیا ہے۔
اسی طرح اگر حدیث میں کسی کام پر وعید جیسے لعنت یا غضب یا عذاب وغیرہ کا ذکر ہو تو لوگوں کو یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ فلاں عالم نے وعید والا کام کیا ہے ، یا اس کو مباح قرار دیا ہے ، اس لئے اس وعید میں داخل ہے، یہ ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں امت کے درمیان اختلاف ہونا ہمیں معلوم نہیں ہے، سوا اس کے کہ بغداد کے بعض معتزلہ جیسے مریسی اور اس کے ہم خیالوں کے متعلق لوگ بیان کرتے ہیں کہ ان کا نظریہ یہ ہے کہ خطا کرنے والا مجتہد اپنی خطا پر سزایاب ہوگا۔
لحوق وعید بفاعل
یہ بات ہم نے اس لئے کہی ہے کہ حرام کام کرنے والے کو وعید کا لاحق ہونا اس بات پر مشروط ہے کہ وہ اس کام کی حرمت کا علم رکھتا ہو، یا تحریم کے علم پر قادر ہو، کیونکہ جو شخص ایسا نہیں ہے ، مثلا اس نے دیہات میں نشوونما پائی ہے یا نومسلم ہے، اور کوئی حرام کام کر بیٹھا جس کی حرمت کا اس کو علم نہیں تھا، تو وہ گنہگار نہیں ہے، اور نہ اس پر حد آتی ہے، اگرچہ اس کے حق میں یہ استحلال کسی شرعی دلیل کی طرف مستند نہیں ہے۔
پس جس شخص کو کسی کام کے حرام ہونے کی حدیث نہ پہنچی ہو ، اور کوئی شرعی دلیل اس کے مباح ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہو تو وہ بدرجہ اولی معذور ہے، اس لئے یہ شخص صواب کی دریافت میں اپنے اجتہاد پر عند اللہ ماجور ومحمود ہوگا، چنانچہ حق تعالی کا ارشاد ہے:
﴿ وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ ﴿٧٨﴾ فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا﴾ [1]
(اور داود وسلیمان کو یاد کرو جب وہ کھیتی کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے، جس وقت اس میں ایک قوم کی بکریاں چر چگ گئی تھیں ، اور ہم ان کے فیصلے دیکھ رہے تھے،
[1] الانبیاء : ۷۸، ۷۹۔