کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 47
تمام بندوں پر حجت ہیں ، جب کہ عالم کی رائے کا معاملہ اس کے برخلاف ہے، اور یہ بات محال ہے کہ شرعی دلیل خطا وار ہو، کیونکہ کوئی دوسری دلیل اس کے معارض نہیں ہے، اور عالم کی رائے ایسی نہیں ہوتی ہے۔
اگر مذکورہ تجویز پر عمل کرنا جائز ہوجائے تو ہمارے ہاتھ میں اس قسم کی جتنی دلیلیں ہیں کچھ بھی باقی نہیں رہیں گی ، لیکن غرض یہ ہے کہ وہ عالم بذات خود ان کے ترک کرنے میں معذور ہے، اور ہم اس ترک کے ترک میں معذور ہیں ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ [1] (یہ ایک امت تھی جو گذر گئی، ان کا کمایا ہوا ان کے لئے اور تمہارا کمایا ہوا تمہارے لئے ہے، تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں ہوگا)۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ﴾ [2] (اگر کسی امر میں تمہارے درمیان نزاع واقع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ)
کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کسی شخص کے قول سے کرے، جیسا کہ ایک شخص نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک مسئلہ پوچھا ، انہوں نے حدیث سے جواب دیا، سائل نے کہا : ابوبکر اور عمر کا قول یہ ہے ، ابن عباس نے برافروختہ ہو کر فرمایا: قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر کی بارش ہو ، میں کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے، اور تم کہتے ہو کہ ابو بکر وعمر نے یوں کہا ہے۔
فائدہ :
جب یہ معلوم ہوگیا کہ حدیث پر ترک عمل کے لئے مذکورہ اسباب میں سے کوئی سبب ہوا کرتا ہے ، تو جب کوئی صحیح حدیث معلوم ہو جائے جس میں حلال یا حرام یا اور کوئی حکم مذکور ہو تو کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ دل میں یہ خیال لائے کہ حدیث کا تارک ان علماء میں
[1] البقرۃ: ۱۳۴۔
[2] النساء : ۵۹ ۔