کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 46
مدینہ کا ایک گروہ صحیح حدیث کو اہل مدینہ کے عمل کا معارض قرار دے کر اس کو دفع کر دیتا ہے، کیونکہ ان لوگوں نے مذکورہ صورت میں خبر کی مخالفت پر اجماع کیا ہے، اور ان کا اجماع حدیث پر حجت متقدم ہے، جیسے خیار مجلس کی احادیث کی مخالفت اسی اصل پر مبنی ہے، جب کہ بہت سے علماء اس مسئلہ میں اہل مدینہ کے درمیان اختلاف ثابت کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ کسی امر پر اجماع کریں اور دوسرا ان کے اجماع کے خلاف عمل کرے تو اس موقع پر حدیث حجت ہوگی ، ان کے اجماع کا اعتبار نہیں ہوگا۔
اسی طرح ایک جماعت نے بعض احادیث کو قیاس جلی کے معارض قرار دے کر اس بنا پر اس کو ترک کیا ہے کہ قواعد کلیہ کو اس جیسی حدیث سے توڑا نہیں جاسکتا ، ان مذکورات کے علاوہ بھی معارضات کی کئی صورتیں ہیں ، ان میں معارض شخص خواہ صواب پر ہوگا یا خطا پر ، یہ الگ بحث ہے، بہرحال یہ دس قسم کے اسباب جو ہم نے ذکر کئے ہیں ظاہر اور واضح ہیں ۔
یہ ہو سکتا ہے کہ کسی عالم کو بہت سی حدیثوں پر ترک عمل کی حجت یہ ہو کہ ان حدیثوں کی اسے اطلاع نہیں ملی ہے، کیونکہ علم کی دستیابی کے مواضع بہت کشادہ ہیں ، اور علماء کے بواطن میں جو علوم محفوظ ہیں ، ان تمام پر اطلاع کسی کو حاصل نہیں ہے، کبھی عالم حجت ودلیل خود ظاہر کردیتا ہے، اور کبھی نہیں کرتا ہے، اور ظاہر کرنے کی صورت میں کبھی وہ ہم تک پہنچتی ہے، اور کبھی نہیں پہنچتی ہے، اور پہنچنے کی صورت میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وجہ استدلال معلوم کر لیتے ہیں اور کبھی معلوم نہیں کر پاتے ، خواہ وہ حجت نفس الامر میں اور اپنی ذات کی حد میں صواب ہو یا نہ ہو۔
ہر چند کہ ہم نے یہ تجویز پیش کی ہے ، لیکن ہمارے لئے زیبا نہیں ہے کہ جس قول پر صحیح حدیث سے یا اہل علم کی ایک جماعت کی فقہ سے حجت ظاہر اور واضح ہو چکی ہے، اس کو چھوڑ کر دوسرے قول کی طرف رجوع کریں کہ اس کو ایک عالم نے کہا ہے، اور امکان ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی دلیل ہوگی جس سے حجت مذکورہ دفع ہو سکتی ہے، ایسے عالم کا قول لائق قبول نہیں ہوگا، اگرچہ وہ بہت بڑا دانا کیوں نہ ہو، کیونکہ علماء کی آراء کی طرف خطا کا راہ پانا شرعی دلائل کی طرف راہ پانے سے بہت زیادہ ہوا کرتا ہے، اس لئے کہ دلائل شرعیہ اللہ کے