کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 45
کتب حدیث کی تدوین نہیں ہوئی تھی ، دوسرے یہ کہ ایک شہر کی خبر اور حدیث دوسرے شہروں تک پہنچ نہیں رہی تھی ، اس وجہ سے کہ راستے مسدود تھے، گذرگاہیں نہیں تھیں ، ایک کا دوسرے تک پہنچنا مشکل تھا، لیکن اب کسی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں ہے، اس لئے کسی قسم کا عذر وبہانہ صحیح نہیں ہوگا۔
دسواں سبب :
یہ سبب اس طرح ہے کہ حدیث ایسی چیز کے معارض ہے جواس کے ضعیف یا منسوخ ہونے یا کسی ایسی چیز کے ساتھ تاویل کئے جانے پر دلالت کر رہی ہے کہ دوسرا شخص اس چیز کے معارض ہونے کا معتقد نہیں ہے، یادرحقیقت خود کوئی راجح معارض نہیں ہے، جیسے بہت سے اہل کوفہ صحیح حدیث کو ظاہر قرآن کے معارض اس خیال واعتقاد کی بنا پر ٹھہراتے ہیں کہ ظاہر کتاب جو عموم وغیرہ سے تعلق رکھتا ہے وہ نص حدیث پر مقدم ہے، اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ غیر ظاہر کے بارے میں ظاہر کا اعتقاد رکھتے ہیں ، اس بنا پر کہ اس قول کی دلالت اپنے ہمراہ بہت سی وجوہ کی حامل ہے، اسی لئے انہوں نے شاہد اور یمین کی حدیث کو رد کر دیا ہے۔
دوسرے اہل علم جانتے ہیں کہ ظاہر قرآن میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو ایک شاہد اور یمین کے ذریعہ فیصلہ کرنے سے مانع ہو، اگر اس میں کوئی ایسی بات ہو بھی تو سنت صحیحہ ان کے نزدیک مفسر قرآن ہوگی، ( نہ کہ معارض ) اور شافعیہ کا قول اس قاعدے کے بارے میں معروف ہے، ایسے لوگوں کے بارے میں امام احمد کا ایک رسالہ ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ ظاہر قرآن کافی ہے ، اور سنت رسول کو اس کی تفسیر قرار دینے کی ضرورت نہیں ہے، امام موصوف نے اس رسالہ میں بہت سی دلیلیں ذکر کی ہیں ، جن کو بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
اسی قبیل سے اس حدیث کو رد کرنا ہے جس میں عموم کتاب کی تخصیص یا مطلق قرآن کی تقیید یا قرآن پر زیادتی کی صورت ہو، جولوگ اس کے قائل ہیں ان کا اعتقاد یہ ہوتا ہے کہ نص پر زیادتی جیسے مطلق کی تقیید اور عام کی تخصیص وغیرہ اس نص کا نسخ ہے، اسی طرح اہل