کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 44
شہادت کو جائز رکھا ہوگا ، لیکن اس شہادت کی قبولیت حضرت علی، انس اور شریح وغیرہم سے محفوظ ومنقول ہے، ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ یوں کہے: لوگوں نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ بعض معتق (غلام آزاد کرنے والے) وارث نہیں ہوتے ہیں ، حالانکہ حضرت علی اور ابن مسعود سے اس کو وارث بنایا جانا محفوظ ہے، اور اس باب میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حسن حدیث آئی ہے، اسی طرح کوئی کہتا ہے کہ میں کسی شخص کو نہیں جانتا ہوں کہ اس نے نماز میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا واجب قرار دیا ہو، حالانکہ جعفر صادق وغیرہ سے اس کا ایجاب محفوظ ہے۔ حاصل : اس مقام کا حاصل یہ ہے کہ بہت سے اہل علم کی غایت یہ ہے کہ وہ اپنے شہر ووطن کے معروف علماء کا قول جانیں اور معلوم کریں ، دوسرے بلاد ومقامات کے لوگوں کے اقوال سے سروکار نہ رکھیں ، جیسا کہ بہت سے متقدمین اسی طرح کے پائے جاتے ہیں کہ اہل مدینہ اور اہل کوفہ کے اقوال کے سوا دوسروں کے قول کو جانتے ہی نہیں ہیں ، اور بہت سے متاخرین کا حال یہ ہے کہ وہ ائمہ متبوعین میں سے ایک دو یا تین کے قول کے سوا دوسروں کے قول سے نابلد ہوتے ہیں ، اس لئے ان کی معلومات سے جو قول خارج ہوتا ہے وہ ان کے نزدیک مخالف اجماع ہے، کیونکہ اس خارج قول کے قائل کو وہ جانتے نہیں ہیں ، اور ہمیشہ اس کے خلاف کان کھاتے رہتے ہیں ۔ جس شخص کا حال ایسا ہو اس سے کہاں ہو سکتا ہے کہ حدیث شریف کی طرف مائل ہو، کیونکہ حدیث اس کے مخالف ہے، اور وہ اجماع کی مخالفت سے ڈرتا ہے، اور اعتقاد رکھتا ہے کہ یہ حدیث مخالف اجماع ہے، اور اجماع ایک عظیم ترین حجت ہوتی ہے، یہی عذر اکثر لوگ اپنی بہت سی متروک احادیث کے بارے میں پیش کرتے ہیں ، لیکن ان میں سے بعض لوگ اس معذرت میں حقیقۃََ معذور ہیں ، اور بعض درحقیقت معذور نہیں ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ گذشتہ زمانے میں ان عذروں کے لئے گنجائش تھی ، کیونکہ ان ایام میں