کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 43
نوواں سبب:
یہ اعتقاد ہو کہ حدیث کسی ایسی دلیل کے معارض ہے جواس کے ضعف یا نسخ یا تاویل پردلالت کرتی ہے، لیکن تاویل ایسی چیز کے ذریعہ ہو جو بالاتفاق معارض ہونے کی صلاحیت رکھتی ہو، جیسے کوئی آیت یا دوسری حدیث یا اجماع ہو۔
اس معارضہ کی دو صورتیں ہوتی ہیں ، ایک یہ کہ اس بات کا اعتقاد ہو کہ حدیث کا معارض فی الجملہ راجح ہے، اور ان تینوں (ضعف، نسخ ، تاویل) میں سے کسی ایک کی تعیین کئے بغیر کوئی ایک متعین ہو، اور کبھی ان میں سے ایک اس طور پر متعین ہوتا ہے کہ وہ منسوخ یا مؤول ہے، پھر متقدم کو متاخر ہونے کا اعتقاد رکھنے سے منسوخ کے بارے میں غلطی ہو جاتی ہے ، اور کبھی تاویل میں یہ غلطی ہو جاتی ہے کہ حدیث کو ایسے معنی پر حمل کیا جاتا ہے کہ لفظ حدیث اس کا احتمال نہیں رکھتا ہے، یا وہاں پر کوئی ایسی چیز ہے جو احتمال مذکور کے لئے مانع ہوتی ہے، اگر دوسری دلیل من حیث الجملۃ حدیث کے معارض ہو تو یہ اس کے ضعف وغیرہ پر دلیل نہیں ہوگی ۔
کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ دوسری حدیث سند ومتن میں پہلی حدیث جیسی نہیں ہوتی ہے، اور یہاں پر پہلے بیان کئے گئے اسباب اور ان کے علاوہ بھی حدیث اول میں پیش آئیں گے۔
لوگ جس اجماع کا اکثر دعوی کرتے ہیں وہ اس بات سے عبارت ہے کہ اس کے مخالف کا علم نہیں ہے، بڑے بڑے علماء کو ہم نے پایا ہے کہ وہ بہت سی چیزوں کے قائل رہے ہیں اور ان چیزوں کے بارے میں ان کا استدلال یہی رہا کہ کسی مخالف کا علم ہمیں نہیں ہے، حالانکہ ان کی دلیلوں کا ظاہر ان کے قول کے خلاف کا مقتضی ہے، لیکن عالم کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسی چیز پیش کرے کہ کوئی قائل اس کو نہ جانتا ہو، باوجودیکہ وہ یہ بات جانتا ہے کہ اس قول میں علماء اس کے مخالف ہیں ، یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے یہ تعلیق لگائی ہے کہ اگر مسئلہ میں اجماع ہو تو اس کی اتباع اولی ہے، ورنہ ہمارا قول چنیں وچناں ہے۔
یہ کام اس طریقہ پر ہوگا کہ کوئی عالم کہے میں کسی کو نہیں جانتا کہ اس نے غلام کی