کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 42
ہے کہ عام مخصوص حجت نہیں ہے، اور جو عموم کسی سبب پر وارد ہوتا ہے اس کا معاملہ اسی سبب تک محدود رہتا ہے ، اور کسی چیز کا محض حکم کر دینا اس کے وجوب کا مقتضی نہیں ہے، یا اس کو فورا کرنے کو مستلزم نہیں ہے، اسی طرح یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ معرف باللام کے لئے عموم نہیں ہوتا ہے، پس مضمرات اور معانی میں عموم کا دعوی نہیں کیا جاسکتا، یہ بہت وسیع بحث ہے۔ اصول فقہ کا بعض حصہ ایسا ہے کہ اس کے اختلافی مسائل اس قسم میں داخل ہیں ، اگرچہ خالص اصول ان تمام اختلافی دلالات کو محیط نہیں ہیں ، اور اس قسم میں دلالات کی جنسوں کے افراد داخل ہیں ، یہ بحث بھی شامل ہے کہ یہ اجناس اسی جنس سے ہیں یا دوسری سے ، مثلا یہ اعتقاد ہو کہ لفظ معین مجمل ہے، کیونکہ وہ مشترک ہے ، اور دلالت اس کے دو معنوں میں سے ایک کی تعیین نہیں کرتی ہے، وغیر ذلک۔ میں کہتا ہوں کہ ائمہ حنفیہ وشافعیہ وغیرہما میں سے ہر ایک نے اپنی فقہ کے لئے اصول وضع کرکے مدون کئے ہیں ، اور دوسروں نے ان کے بعض یا اکثر اصول کا رد کیا ہے، یہ جھگڑا زمانۂ قدیم سے اس امت میں جاری ہے، اس نزدیکی زمانے میں صاحب ارشاد الفحول اس قضیے کے فیصلہ کی طرف راغب ہوئے اور ان زبردست اماموں کے اصول کے حقائق کو کتاب وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر صحرا رسید کردیا، جیسا کہ حصول المامول سے ظاہر ہے، لیکن جہالت ، تعصب اور حجاب رسوم کے مفاسد شمار سے زیادہ ہیں ۔ آٹھواں سبب: امام کا یہ اعتقاد ہو کہ حدیث کی دلالات کے کوئی چیز معارض ہے جو حدیث سے اس معنی کے مراد نہ لینے پر دلالت کر رہی ہوگی، جیسے عام وخاص ، مطلق ومقید کے درمیان تعارض یا امر مطلق جس سے وجوب کی نفی ہوتی ہے یا حقیقت ومجازوغیرہ جو معارضات کی قسمیں ہیں ، اس باب میں بڑی وسعت ہے، کیونکہ اقوال کی دلالات میں تعارض اور ایک دوسرے پر ترجیح کی بحث ایک ناپیداکنار سمندر ہے۔