کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 41
کو کتاب وسنت میں دیکھ کر یہ اعتقاد کر لیا کہ اس سے مراد شیرۂ انگور ہے جس میں تیزی آگئی ہو، اس اعتقاد کی خاص وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی لغت میں یہی معنی معروف ہے، اگرچہ بہت سی صحیح حدیثوں میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر نشیلی چیز کا نام خمر ہے۔
بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ لفظ حدیث مشترک یا مجمل یا حقیقت اور مجاز کے درمیان متردد ہوتا ہے اور یہ شخص اس کو ایسے معنی پر حمل کرتا ہے جو اس کے نزدیک قریب تر ہوتا ہے ، حالانکہ اس سے مراد دوسری چیز ہوتی ہے ، جیسا کہ صحابہ کی ایک جماعت نے اول امر میں خیط ابیض اور خیط اسود کو رسی دھاگے پر حمل کیا تھا ۔ ( حالانکہ ان سے مراد صبح صادق اور صبح کاذب ہے) بعض صحابہ نے آیت کریمہ ﴿ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ﴾ میں ہاتھوں کو بغل تک دھونے کی بات کہہ دی۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دلالت نص خفی ہوتی ہے ، کیونکہ دلالت اقوال کی جہات بہت وسعت رکھتی ہیں ، اور سب لوگ ان جہات کے علم وفہم میں ایک درجہ کے نہیں ہوتے، کیونکہ وجوہ کلام کی فہم حق سبحانہ کی عطا وبخشش کے بقدر حاصل ہوتی ہے، اور آدمی کلام کو عمومی حیثیت سے جانتا ہے ، اس کے معین معنی کو سمجھ نہیں پاتا جواس عام میں داخل ہوتا ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ معین معنی کو سمجھ جاتا ہے ، مگر بعد میں اس کو بھول جاتا ہے۔
بہرحال یہ باب بہت وسیع ہے، اللہ کے سوا دوسرا اس کا احاطہ نہیں کرسکتا، بعض دفعہ کسی عالم کی سمجھ میں کلام سے ایسی بات آتی ہے کہ لغت عربیہ جس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں ، اس معنی کی محتمل نہیں ہوتی ہے۔
ساتواں سبب :
امام یا عالم اس بات کا معتقد ہو کہ حدیث میں مدعا پر دلالت نہیں ہے ، اس سبب اور چھٹویں سبب کے درمیان فرق یہ ہے کہ پہلا شخص جہت دلالت سے ناواقف ہے، اور یہ شخص واقف ہے، لیکن اپنے مقررہ اصول کی بنا پر اعتقاد کر بیٹھا کہ یہ دلالت صحیح نہیں ہے، پس اس دلالت کو رد کر دیتا ہے، چاہے واقع میں درست ہو یا غلط، مثلا: وہ اس بات کا معتقد