کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 39
چوتھا سبب:
خبر واحد میں بعض ائمہ نے کچھ شروط مقرر کی ہیں ، جیسے راوی کا عادل وضابط ہونا چاہئے، دوسرے علماء اس کے مخالف شرط کرتے ہیں ، جیسے بعض لوگوں نے یہ شرط کی ہے کہ حدیث اور کتاب اللہ میں موافقت ہو، بعض یہ کہتے ہیں کہ جب حدیث قیاس اصول کے خلاف ہو تو محدث کو اس فقیہ کے ساتھ ہونا چاہئے ، اور بعض نے عموم بلوی کی قسم کے مسائل میں حدیث کے ظاہر اور شائع وذائع ہونے کی شرط رکھی ہے۔
اس طرح کی اور بھی شرطیں ہیں جو اپنے مقام میں معروف ہیں ۔
پانچواں سبب:
پانچواں سبب یہ ہے کہ عالم کو حدیث پہنچی ہے اور ثابت شدہ بھی ہے، لیکن اس کو بھول گیا ہے، ایسا کتاب وسنت دونوں کے سلسلے میں ہوجایا کرتا ہے، جیسے حضرت عمر کا مشہور واقعہ ہے کہ جب ان سے جنبی شخص کے بارے میں یہ پوچھا گیا کہ وہ سفر میں پانی نہ پائے تو کیا کرے؟ جواب دیا کہ جب تک پانی نہ پائے نماز نہیں پڑے گا ، عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کو یاد نہیں ہے کہ میں اور آپ ایک سفر میں تھے، اور ہم دونوں جنبی ہوگئے، غسل کے لئے پانی نہیں تھا ، آپ نے نماز نہیں پڑھی ، میں نے چوپایہ کی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ لگائی، پھر نماز پڑھی، یہ قصہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، آپ نے فرمایا: تمہیں اتنا ہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارتے ، پھر پھونک کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر ملتے، حضرت عمر نے کہا اے عمار! اللہ سے ڈرو، انہوں نے کہا اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں یہ حدیث بیان نہ کروں ؟ فرمایا تمہیں روایت کرنے کا اختیار ہے۔
یہ وہ سنت ہے جس میں حضرت عمر حاضر رہے ، لیکن فتوی اس کے خلاف دیا، اور حضرت عمار نے اس کو انہیں یاد دلایا ، لیکن یہ سنت ان کو یاد نہیں آئی، مگرعمار کی تکذیب بھی نہیں کی، بلکہ اس کو بیان کرنے کا حکم دیا ۔
اس واقعہ سے زیادہ بلیغ حضرت عمر کے خطبہ کا وہ قصہ ہے جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم