کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 37
کے ساتھ، یا دونوں کے ساتھ، سب برابر ہے، انتہی۔
لیکن یہ قول مردود ہے، کیونکہ مجتہدین کی کثیر جماعت چاہے متقدمین کی ہو یا متاخرین کی، ان میں مصیب ایک ہی ہے، البتہ ہر مجتہد اپنے قول کے صواب ہونے کی صورت میں دو اجر سے ماجور ہوتا ہے ، اور خطا کی صورت میں ایک اجر پاتا ہے، بشرطیکہ اس مسئلہ کی دریافت میں پوری قوت صرف کیا ہو، ورنہ اجر کا سزاوار نہیں ہوگا۔
اس تیسرے سبب کے کئی اسباب ہیں ، ان میں سے بعض یہ ہیں : کوئی ایک امام حدیث بیان کرنے والے کے ضعیف ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے، اور دوسرا اس کو ثقہ قرار دیتا ہے، اس کا تعلق معرفت رجال سے ہے، جو بہت وسیع علم ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صواب دوسرے امام کے ساتھ ہوتا ہے، کیونکہ اس کو رجال کی معرفت حاصل ہے، اس کے نزدیک یہ سبب جرح حدیث کا باعث نہیں ہے، یا اس سبب کی جنس جارح نہیں ہے، یا اس عالم کو اس میں ایسا کوئی عذر ہے جو اس کو جرح سے باز رکھتا ہے، یہ باب ان علماء کے لئے جو رجال واحوال رجال کو جانتے پہچانتے ہیں ، بہت وسیع ہے، اس بارے میں کہیں پر ان کا اجماع اور کہیں پر اختلاف ہوتا ہے، جیسا کہ دوسرے علوم وفنون والوں کا ان میں ہوا کرتا ہے۔
من جملہ اسباب یہ ہے کہ امام حدیث بیان کرنے والے کے حق میں حدیث کی سماعت کا اعتقاد نہیں رکھتا اور جو شخص اس محدث سے یا دوسرے شیخ سے حدیث بیان کرتا ہے وہ اس حدیث کی سماعت کا معتقد ہے کیونکہ اسباب معروفہ اس اعتقاد کے موجب ہیں ۔
من جملہ اسباب یہ ہے کہ حدیث بیان کرنے والے (راوی) کی دو حالتیں ہوں ، ایک حالت استقامت ، دوسری حالت اضطراب، مثلا راوی کی حالت پہلے ٹھیک رہی ، پھر اس کو اختلاط واشتباہ کا عارضہ ہوگیا، یا اس کی کتابیں جل گئیں ، پس اس نے جو حدیث حالت استقامت میں بیان کی ہے وہ صحیح ہے، اور جو حدیث حالت اضطراب میں بیان کیا ہے وہ ضعیف ہے، لیکن یہ بات معلوم نہیں ہو رہی ہے کہ زیر بحث حدیث ان دونوں قسموں میں سے کس قسم سے ہے؟ البتہ دوسرا عالم جانتا ہے کہ راوی مذکور نے اس حدیث کو حالت