کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 36
کے ادوار میں اس کی مثالیں عصر اول کی بنسبت زیادہ موجود ہیں ، کیونکہ احادیث مطہرہ ہر طرف پھیل چکی ہیں ، اور بہت سے علماء کو طرق کثیرہ سے حدیثیں پہنچ گئی ہیں ، ان کے برخلاف دوسرے علماء کو طرق صحیحہ سے حدیث پہنچنے میں کوئی مانع پیش آگیا ، پس اس قسم کی احادیث حجت ہوں گی ، اگرچہ یہ حدیثیں کسی مانع کی وجہ سے مخالف کو نہیں پہنچ سکیں ، اسی لئے متعدد ائمہ نے اپنا قول حدیث کے موافق ٹھہرانے کو حدیث کے صحیح ہونے پر معلق کیا ہے، چنانچہ کہتے ہیں : ’’قولی فی المسئلۃ کذا، وقد روی فیھا حدیث بکذا، فان کان صحیحا فھو قولی‘‘ (اس مسئلہ میں میرا قول یہ ہے، اور اس کے خلاف حدیث اس طرح آئی ہے، اگر حدیث صحیح ہے تو وہی میرا قول ہے) میں کہتا ہوں کہ امام شافعی کے اس قسم کے ارشادات بہت ہیں ، اور بہت سے مسائل جن کے بارے میں صحیح حدیثیں آئی ہیں ، ان کے متعلق امام بیہقی کہتے ہیں کہ ان کے امام مذہب کے قول کے مطابق اس حدیث کا مدلول یہی ہے، اسی کے مطابق وہ قضاء اور افتاء فرماتے رہے ، یہ مسائل اس سے کہیں زیادہ ہیں جسے اس مختصر میں تلاش کیا جاسکے، شاید اس مطلب کی بعض مثالیں صحیح مسلم پر ہماری شرح ’’السراج الوہاج ‘‘ میں دستیاب ہوجائیں ، اس باب میں ائمہ اربعہ مجتہدین کے اقوال (یعنی حدیث کو لینے اور رائے وتقلید کو چھوڑنے کے متعلق ) عنقریب آئیں گے، ان شاء اللہ تعالی۔ تیسرا سبب : امام کا قول حدیث کے خلاف ہونے کا تیسرا سبب یہ ہے کہ امام اپنے اجتہاد کی بنا پر حدیث کے ضعیف ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے، اور دوسرے نے حدیث کے دوسرے طریق سے قطع نظر اپنے اجتہاد سے اس بارے میں پہلے قائل سے اختلاف کیا ہے، تو ان لوگوں کے نزدیک جو کہتے ہیں کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے ، صواب پہلے کے ساتھ ہوگا یا دوسرے