کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 35
ان حالات کے پس منظر میں امام شافعی جب صحابہ وتابعین کے اقوال میں نظر کرتے تو دیکھتے کہ ان کے بہت سے کلمات خلاف حدیث ہیں ، اس لئے کہ حدیث ان کو پہنچی نہیں ، یا پہنچی لیکن غیر صحیح طریقے سے، پس اس صورت میں امام شافعی مضمون حدیث کو اختیار کرتے ، اور ان لوگوں کا جو قول موافق حدیث نہ ہوتا اسے چھوڑ دیتے اور فرماتے : ’’ھم رجال ونحن رجال‘ اس طرح تمام سلف کی کارروائی عمدہ وبہتر ہوا کرتی تھی، انتہی ملخصا۔
میں کہتا ہوں کہ ہدایۃ السائل میں مسائل کے تحت متفرق ابواب قائم کرکے انصاف کا ترجمہ ہم نے کردیا ہے، اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔
سبب دوم :
امام کا قول خلاف حدیث ہونے کی صورت میں امام کے معذور ہونے کا دوسرا سبب ’’رفع ملام ‘‘ میں یہ بیان کیا ہے کہ امام کو حدیث پہنچی لیکن پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچی، اس کی حسب ذیل صورتیں ہیں :
حدیث بیان کرنے والا، یا اس کا شیخ، یا رجال اسناد میں سے کوئی اور راوی امام کے نزدیک مجہول یا متہم یا سی ء الحفظ ہے، یا وہ حدیث امام تک مسند طریق سے نہیں پہنچی، بلکہ منقطع طور پر پہنچی ہے، یا لفظ حدیث محفوظ ومنضبط نہیں ہے۔
حالانکہ دوسرے علماء کے نزدیک یہی حدیث ثقہ راویوں سے متصل سند کے ساتھ مروی ہوتی ہے، اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اس میں مجہول راوی کے بدلے ثقہ راوی ہوتاہے، یا وہ حدیث غیر مجروح رجال سے مروی ہوتی ہے، پس دوسرے طرق سے وہ منقطع درحقیقت متصل کے درجہ میں ہوتی ہے۔
رہا الفاظ حدیث کے ضبط کا مسئلہ ، تو بعض محدثین حفاظ نے ان کو قاعدہ کے مطابق ضبط کردیا ہے، ان صورتوں کے علاوہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ضعیف روایت متابعات وشواہد کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے، اور محدثین کے نزدیک وہ حدیث صحیح شمار ہوتی ہے۔
اس طرح کے ماجریات بہت ہیں ، تابعین، تبع تابعین ، ائمہ مشہورین اور ان کے بعد