کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 34
ایسی حقیقت ہے کہ اس معاملہ کا دانا اور اس سے آگاہ شخص اس میں کوئی شک نہیں کرتا ہے۔
کوئی قائل یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو شخص بہت زیادہ حدیثیں نہیں جانتا ہے وہ مجتہد نہیں ہے، کیونکہ اگر مجتہد میں یہ شرط مقرر کریں کہ وہ احکام سے متعلق تمام اقوال وافعال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم ہو، تو امت میں کوئی مجتہد نہیں رہ جائے گا ، بلکہ عالم کی بڑی سے بڑی حد یہ ہے کہ جمہور یا ان کا بڑا طبقہ اس کو اس طور پر جانتا ہو کہ کثیر میں سے قلیل حصہ اس پر مخفی ہوسکتا ہے، پھر کبھی یہ قلیل مقدار ایسی حدیث کے مخالف پڑسکتی ہے جو اس تک پہنچی نہیں ہے، اس حالت میں اس عالم کو معذور سمجھنا چاہئے، انتہی۔
اس مضمون کا بعض حصہ ایقاف میں بھی ذکر کیا ہے، اور ابن قیم کے حوالے سے معمولی تغیر اور کچھ زیادتی کے ساتھ بیان کیاہے، ابوعمر اور ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص نہیں آیا ہے جس پر بعض حدیثیں مخفی نہیں رہی ہیں ، حدیث کے یہ تمام دفاتر اور کتابیں ائمہ کرام کے ختم زمانہ کے بعد مدون اور مجموع ہوئی ہیں ، پھر بھی ان میں تمام احادیث کا منحصر ہونا ممکن نہیں ہے، اسی طرح ان کے وجود میں آنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ قریب قریب بھی تمام احادیث کو محیط ہوں گی، انتہی۔
شیخ مسند احمد محدث دہلوی نے انصاف میں لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث ایسی ہیں کہ ان کو صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے سوائے ایک دو شخص کے کسی نے روایت نہیں کیا ہے، اسی طرح ایک دو صحابی سے ایک دو تابعی سے زیادہ نے ان کو اخذ نہیں کیا ہے، اسی طرح سلسلہ بسلسلہ اور بہت سی حدیثیں ایسی ہیں کہ ان کو ایک شہر یا دو شہر سے زیادہ کے لوگ روایت نہیں کرتے ہیں ، اسی لئے بعض صحیح حدیثیں اس طبقہ کے دوسرے علماء کو نہیں پہنچیں ، ناچار ان لوگوں نے اپنے پیش روؤں کی اقتدا کرتے ہوئے اپنی رائے سے فتوی دیا ، پھر طبقۂ ثانیہ یا اس کے بعد کے حفاظ جامعین کے زمانہ میں دقت نظری وباریک بینی سے کام لیتے ہوئے علماء ملکوں ، شہروں اور اطراف وجوانب کا سفر کرنے لگے، تو مخفی حدیثیں ظاہر وباہر ہونے لگیں اور ان لوگوں کے پاس ہر شہر کے فقہاء وعلماء کی احادیث وآثار فراہم ہوتی گئیں ۔