کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 33
سلب سے مراد یہ ہے کہ دشمن سے چھینے ہوئے مال کا پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کرنا)۔
یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے کثیر میں سے قلیل اور انبار میں سے تھوڑا سا ہے، ورنہ اس کے انواع واقسام مطولات میں بہت ہیں ، جو کوشش اور مہارت حاصل کرنے والوں پر مشکل نہیں ہیں ۔
علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اعلام میں اس طرح کی بحث کے بعد کہا ہے: ’’وھذا باب لو تتبعناہ لجاء سفر کبیر‘‘ یہ ایسا باب ہے کہ اگر ہم اس کا تتبع کریں تو بڑے بڑے دفتر تیار ہو جائیں ، انتہی۔
شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ جو شخص اس بات کا معتقد ہو کہ ہر صحیح حدیث ائمہ میں سے ہر ایک امام کو یا کسی معین امام کو پہنچ چکی ہے تو وہ قبیح اور بھیانک غلطی کر رہا ہے، کوئی کہنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ احادیث مدون اور جمع ہوگئی ہیں ، پھر ان کے پوشیدہ رہنے کی یہ صورت حال کیا معنی رکھتی ہے ؟ کیونکہ احادیث کے یہ مشہو ردفاتر اور مجموعے علماء وائمہ متبوعین کے اختتام کے بعد تیار ہوئے ہیں ، اس جمع وتدوین کے باوجود معینہ دفاتر وکتب میں حدیث رسول کے انحصار کا دعوی کرنا جائز نہیں ہے۔
اور اگر ان دفاتر میں یہ انحصار ہم بالفرض تسلیم کرلیں ، پھر بھی ان کتابوں میں جس قدر حدیثیں ہیں ضروری نہیں ہے کہ ہر عالم ان کو جانتا ہو، بلکہ اس ملکہ ومہارت کا حصول بھی بعید بات ہے، ایسا بہت ہوتا ہے کہ ایک عالم کے پاس بہت سی کتابوں کا انبار موجود ہوتا ہے، لیکن اس کا علم ان میں موجودہ علوم کا احاطہ نہیں رکھتا ہے، یہ بھی ملحوظ رہے کہ حدیث کے ان دفاتر کے مدون ہونے سے پہلے جو لوگ رہے وہ ان متاخرین کی نسبت حدیث کے زیادہ جاننے والے تھے، کیونکہ بہت سی حدیثیں جو ان کو پہنچیں اور صحت کے ساتھ ان کو ملیں وہ کبھی اس طرح ہم تک نہیں پہنچ سکی ہیں ، اگر پہنچی ہیں تو مجہول یا منقطع اسناد کے ساتھ، یا بالکلیہ ہی ہم تک نہیں آئی ہیں ، متقدمین کے سینے ان احادیث کے دفاتر تھے، جن میں ان مدون دفاتر سے کئی گنا زیادہ علوم دین سمائے ہوئے تھے ، یہ سفینے ان کے سینوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، یہ