کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 26
نہیں تھی، کما فی الرفع (مفوضہ وہ عورت ہے جو بغیر مہر کے بیاہی گئی ہو)۔ حضرت علی کا قول ہے کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ تعالی جو چاہتا اس سے ہمیں نفع پہنچاتا ، اور جب دوسرا کوئی مجھ سے حدیث بیان کرتا تو میں اس سے قسم کھانے کا مطالبہ کرتا، جب وہ قسم کھالیتا تو میں اس کو سچا جانتا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے حدیث بیان کی اور سچ بات کہی، انہوں نے مجھ سے نماز توبہ کی مشہور حدیث ذکر کی ہے۔ یہ قول اس بات پر روشن دلیل ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث کے عالم وحافظ نہیں تھے، اسی طرح اس قول میں حضرت ابوبکر صدیق کے صدق اور فضیلت پر بھی دلیل ہے کیونکہ حضرت علی نے ان سے حلف کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ حضرت علی اور ابن عباس وغیرہما نے فتوی دیا کہ متوفی عنہا زوجہا جب حاملہ ہو تو اس کی عدت ابعد الاجلین ہے ( یعنی چار ماہ دس روز اور مدت وضع حمل میں سے جو طویل وبعید عدت ہو) ان لوگوں کو سبیعہ اسلمیہ کے بارے میں حدیث رسول نہیں پہنچی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ فتوی دیا تھا کہ ان کی عدت وضع حمل ہے۔ اسی طرح حضرت علی ، زید اور ابن عمر وغیرہم نے فتوی دیا کہ جب مفوضہ عورت کا خاوند مرجائے تو اس کے لئے مہر نہیں ہوگی، اس مسئلہ کے متعلق بروع بنت واشق کے بارے میں وارد حدیث ان لوگوں کو معلوم نہیں تھی۔ رفع الملام میں لکھا ہے کہ یہ دروازہ بہت کشادہ ہے، اس باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے جو کچھ منقول ہے اس کی تعداد کثیر ہے، لیکن ان کے بعد والوں سے منقولہ چیزیں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے، حالانکہ یہ لوگ امت کے بہت بڑے علماء ملت کے عظیم فقہاء اور جماعت کے سب سے بلند پایہ اتقیاء وفضلاء رہے ہیں ، ان کے بعد جو بھی آیا ان سے کم تر ہے، اس پر حدیث کا مخفی رہنا زیادہ لائق ہے، یہ بات محتاج بیان نہیں ہے، انتہی۔