کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 19
انجام دیتے تھے تو جو شخص اس وقت آپ کی بارگاہ میں موجود ہوتا وہ سنتا دیکھتا ، اور ان چیزوں کو دوسروں تک پہنچاتا تھا، یہاں تک کہ علمائے صحابہ ، تابعین، تبع تابعین اور جن لوگوں تک اللہ چاہتا وہ سب پہنچ جاتی تھیں ، اسی طرح دوسری مجلس میں بھی حدیث ، فتوی ، قضاء اور کوئی فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقع ہوتا تھا تو پہلی مجلس میں جو لوگ غیر حاضر تھے اس دوسری مجلس میں حاضری سے مشرف ہوتے ، اس صورت حال کی بنا پر پہلی مجلس والوں کے پاس جو علم ہوتا وہ ان کے پاس نہیں ہوتا، اور جوعلم ان کے پاس ہوتا وہ پہلوں کے پاس نہیں ہوتا، اسی وجہ سے صحابہ اور ان کے بعد والے علماء کے درمیان جوفرق مراتب تھا وہ علم کی کثرت یا جودت کے اعتبار سے تھا، رہا افراد امت میں سے کسی کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث کے احاطہ کا دعوی کرنا ہرگز ممکن نہیں ہے ؎ عنقا شکار کس نشود دام باز چیں کا ینجا ہمیشہ باد بدست ست دام را ( عنقا پرندہ کسی کا شکار نہیں ہوتا او شکاری جال لپیٹ لو، کیونکہ یہاں پر ہمیشہ جال کو صرف ہوا ہاتھ آئی ہے ) خلفاء راشدین وغیرہم یہاں پر خلفاء راشدین اور دوسرے بزرگ صحابہ کے حال سے عبرت پکڑنی چاہئے کہ وہ امت میں سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال شریفہ، سنت مطہرہ اور امور کریمہ کے جاننے والے تھے، اس کے باوجود ان امور کے احاطہ کی چوٹی پر پہنچنے سے قاصر رہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ افضل امت ہیں ، جو سفر اور حضر میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتے تھے، اور بیشتر اوقات آپ کی صحبت میں رہا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے پاس مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں گفتگو کیا کرتے ، بلکہ ہر قسم کی باتیں کرتے اور سنتے تھے۔ یہی حال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تھا، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر