کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 18
امامان دین جیسے چاروں ائمہ مجتہدین اور دوسرے بلند پایہ علماء حدیث جن کی مقبولیت کے آگے امت سرنگوں رہتی ہے، ان میں کوئی ایسا نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث اور سنت کی مخالفت کا اعتقاد دل میں رکھتا رہا ہو، چاہے معمولی سنت ہو یا بڑی ، اور چاہے حدیث کثیر ہو یا قلیل، سب ہی ائمہ اور محدثین اتباع رسول کے وجوب پر اور اس بات پر متفق رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر شخص کی حیثیت ایسی ہے کہ اس کی بات قبول کی جاسکتی ہے اور ترک بھی کی جاسکتی ہے۔
ترک حدیث کے اعذار واسباب
لیکن اگر کسی کا قول صحیح حدیث کے خلاف ہو تو ضرور اس کے نزدیک اس حدیث کے ترک کرنے کے بارے میں کوئی عذر ہوگا، ان تمام عذروں کے جامع تین قسم کے عذر ہیں ، ایک یہ کہ اس کے فرمان رسول ہونے کا اعتقاد نہ ہو، دوسرے یہ کہ اس حدیث سے مراد قول ہو، اس سے کوئی مسئلہ یا حکم مقصود نہ ہو، تیسرے یہ کہ حدیث میں مذکور حکم کے منسوخ ہونے کا اعتقاد ہو۔
ان تینوں اعذار کے کئی اسباب ہوتے ہیں ، ان کو نمبر وار بیان کیا جارہا ہے:
پہلا سبب:
ترک حدیث کے عذر کا پہلا سبب یہ ہے کہ امام کو وہ حدیث پہنچی نہیں ہے، اور جس کا حال ایسا ہو وہ اس حدیث کے مقتضی کے مطابق عمل کرنے کا مکلف نہیں ہے، کیونکہ جس مسئلہ میں حدیث نہ پہنچنے کی بنا پر ظاہر آیت یا دوسری حدیث یا قیاس یا استصحاب کے بموجب امام نے بات کہی ہے، تو وہ اس متروک حدیث کے موافق ہوگی اور کبھی مخالف، سلف کے بہت سے اقوال جو بعض احادیث کے مخالف پائے جاتے ہیں ، ان میں زیادہ تر یہی سبب کارفرما ہوتا ہے، اس لئے کہ امت میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام احادیث کا احاطہ کرنے پر قدرت واستطاعت حاصل نہیں ہوسکی ہے۔
دیکھو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات بیان کرتے، فتوی دیتے، فیصلہ فرماتے اور کوئی کام