کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 157
دلائل نبوت میں سے ایک دلیل ہے کہ خبر ، واقعہ کے مطابق پڑی ہے، وللہ الحمد ۔ مقصد کتاب ( حرف آخر ) الحاصل اس رسالہ کے لکھنے سے مقصود اسی معنی کا بیان کرنا ہے کہ جماعت اہلحدیث پر جو یہ الزام وگمان عائد کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ ائمہ اربعہ مجتہدین اور دوسرے علماء دین، متقدمین سلف صالحین یا متاخرین متبعین کے حق میں بے ادبی کا ارتکاب کرتے ہیں ، یہ مخلص مومنوں پر محض افترا اور بدگمانی ہے، ورنہ ان ائمہ وغیرہم کی قدر ومنزلت جس قدر جماعت موحدین کی نظر میں ہے، اس کا دسواں حصہ بھی فرقہ مقلدین میں ثابت نہیں ہوتا ہے، یہ کس قسم کی بات ہو سکتی ہے کہ جو شخص سید المرسلین کی احادیث کا انکار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں گستاخی کرتا ہے ، اور آپ کی سنت صحیحہ پر عمل کرنے کو مجتہدین ومجادلین کی قیل وقال کے مقابلے میں پسند نہیں کرتا ہے، اس سے ائمہ دین کی تعظیم وتکریم کی توقع کہاں ہو سکتی ہے؟ بفرض محال اگر عاملین سنت ائمہ کو بنظر حقارت دیکھتے ہیں تو آخر اسی وجہ سے دیکھتے ہیں کہ احکام ومسائل میں احادیث سے ائمہ کا اختلاف انہیں معلوم ہو گیا ہے، اگرچہ حریف مقابل ان کی اس وجہ کو عصبیت وجہالت کی بنا پر قبول نہ کرے، اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی بہانہ نہیں ہے، پس یہ تحقیر مقلدین کی اس تحقیر کی نسبت بہت معمولی وقلیل ہے جو قرآن وحدیث کی شان میں کرتے ہیں اور دن ورات احادیث صحیحہ سے ثابت مسائل کے رد وانکار میں لگے رہتے ہیں ع ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا بکجا ائمہ مجتہدین سے جناب شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم تک جو فرق ہے، مسلمانوں کے کسی فرد پر مخفی نہیں ہے، ، بجز اس کے جو مادرزاد اندھا ہو، اور اس کی بصیرت کی آنکھ باطل پڑی ہو، سنن سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے مقلدین کا انکار واجتناب ایسی حقیقت ہے جو ہر ایک موافق ومخالف پر ظاہر ہے، اور اس کا انکار کرنا محض مکابرہ ومجادلہ ہے، اگر اس باب میں مقلدین کا انکار ثابت ہے تو اہلحدیث نے کیا گناہ کیا ہے کہ ان کی بات ائمہ مجتہدین کی بے ادبی سے کنارہ کشی میں مقبول نہیں ہے ؎