کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 156
میں سنت پر عمل دشوار ہے، کیونکہ ہر ایک نے اپنی الگ راہ اختیار کر رکھی ہے ، اور اپنے مخالف کی جان وآبرو کا دشمن ہوگیا ہے، بلکہ ہر ایک دوسرے کے درپے آزار ہے، اسی لئے فساد امت کے وقت اہلحدیث اور متبعین سنت کی مدح وستائش اور اچھے وعدوں کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں ، یہاں تک کہ ایک حدیث میں آیا ہے۔ ’’ مَن تَمَسَّكَ بِسُنَّتِي عِندَ فَسادِ أُمَّتِي فَلهُ أَجْرُ مِائِةِ شَهيدٍ ‘‘[1] (جس نے فساد امت کے وقت میری سنت پر عمل کیا اس کو سو شہید کا اجر ہے)۔ اس آخری زمانے کے لوگوں میں سے جو شخص علم سنت کی خدمت، حدیث نگاری اور اس کی اشاعت کرنے والا ہے، اس کے بارے میں شک نہیں ہے کہ وہ زمانے کا رستم دستان اور اپنے وقت کا سام ونریمان ہے۔ [2] کیونکہ وہ اپنے پیچھے بہت سے حاسدین اور دشمن رکھتا ہے، لیکن ؎ گردوست موافق ست سعدی سہل ست جفاء ہر دو عالم ( اے سعدی اگر دوست موافق ہے تو دونوں جہاں کا ظلم وجور آسان ہے) تمہیں معلوم ہوا ہوگا کہ اس آخری دور میں جس طرح یمن کے علماء ومحدثین کے ہاتھوں سے اور اسی طرح ان کے تلامذہ کی کوششوں سے احیاء سنت کی جو خدمت ہوئی ہے، اس کی مثال بہت سے ادوار میں نہیں پائی جاتی ہے: ﴿و ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ﴾ اور ایساکیوں نہ ہو کہ سرور عالم سید ولد آدم نے فرمایا ہے : ’’ الإيمانُ يَمانٍ ، والحكمةُ يَمانيَةٌ ، والفقهُ يَمانٍ ‘‘[3] (ایمان اہل یمن کا ہے، حکمت وسنت یمنیوں کی ہے اور فقہ وفہم بھی یمن والوں کی ہے) اس حدیث میں قرآن وحدیث اور فقہ کو یمن میمون کی طرف منسوب فرمایا ہے، یہ بھی
[1] الترغیب للمنذری ۱ / ۴۱، بروایۃ البیہقی ، الکامل لابن عدی ۲ / ۹۰، ضعیف جدا، الضعیفۃ ۱ / ۳۳۳۔ [2] رستم مشہور پہلوان کا نام ہے اس کے باپ کا نام دستان اور دادا کا نام سام ونریمان ہے۔ [3] بخاری، مغاری : ۴۳۸۸، ۴۳۹۰، مسلم ایمان : ۵۲۔