کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 155
کہ وہ ایمان نہ لائیں ، جب کہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ پھر ہم ہیں ، آپ نے فرمایا: تمہارے لئے کون سی بات ہے کہ ایمان نہ لاؤ، جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں ؟ ( یعنی فرشتوں ، نبیوں اور صحابہ کا بہتر ایمان والے ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے) پھر آپ نے فرمایا: مخلوق میں سب سے زیادہ بہتر وحیرت انگیز ایمان والے میرے نزدیک وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے ، وہ صحیفوں کو پائیں گے جن میں دینی احکام لکھے ہیں ، پس وہ لوگ ان میں موجود دینی امور پر ایمان لائیں گے۔ ( اس حدیث کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے)
اس حدیث میں قوم سے مراد جماعت اہلحدیث ہے، اور صحف سے مراد مصحف قرآن یا حدیث ہے، کیونکہ ایمان انہیں دونوں پر منحصر ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی ارشاد فرماتے ہیں ، وہ خالص دین کے حق میں ہوتا ہے ، آپ ایسی کوئی بات نہیں فرماتے جس کا رخ فقہاء ، متکلمین ، مجادلین ، مقلدین اور متصوفین کی طرف ہو، کیونکہ یہ سب مقصود سے کنارے ہیں ۔
حدیث مذکور میں لفظ ’’بعدی ‘‘ سے دو طرح کی بعدیت مراد ہوسکتی ہے، اگر بعدیت قریبہ متصلہ (یعنی آنحضور کی وفات سے متصل زمانہ ) مراد لی جائے تو اس کا مصداق قرون مشہود لہا بالخیر کے لوگ ہوں گے، اور وہ لوگ بھی جو ان کے طریقوں پر چلنے والے اہلحدیث ومتبعین سنت ہیں ، اور اگر بعدیت بعیدہ منفصلہ ( یعنی آنحضور کی وفات سے منفصل زمانہ ) مراد ہو تو اس کا مدلول محدثین ہیں ، بالخصوص آخر زمانہ تک کے محدثین ہیں ، چاہے جس جگہ اور جس قوم ونسل سے ہوں ، اس کی مؤید انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، جو ترمذی میں مرفوعا اس لفظ کے ساتھ مروی ہے۔
’’ مَثَلُ أُمَّتي مَثَلُ المطَرِ، لا يُدْرى أوَّلُه خيرٌ أمْ آخِرُه ‘‘ [1]
بعد میں آنے والوں کے حق میں یہ بشارت وخیریت اس وجہ سے ہے کہ صدر اول کے زمانے میں سنت پر عمل آسان تھا، سب کی روش اور طریقۂ کار ایک تھا، لیکن آخر زمانے
[1] تقدم برقم : ۷۷۔