کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 154
حدیث میں مذکور پیش گوئی کے مطابق اہل فتن سے مقابلہ کرنا عام بات ہے، یہ مقابلہ ہتھیار سے بھی ہوتا ہے، اور زبان ودل سے بھی ، کیونکہ یہ تینوں صورتیں جہاد فی سبیل اللہ کے افراد میں سے ہیں ، تاکہ وقت وحالات کے مناسب طالب جنت کو کوئی ایک آلہ جہاد میسر رہے، اور بروقت کام میں لائے، اس کی تائید حدیث ذیل سے ہو رہی ہے:
’’ من جاهدَهُم بلِسانِهِ فَهوَ مؤمِنٌ، ومن جاهدَهُم بقَلبِهِ فَهوَ مؤمنٌ ‘‘ الحدیث۔ [1]
(جس نے اپنی زبان سے ان سے جہاد کیا وہ مومن ہے، اور جس نے اپنے دل سے جہاد کیا وہ مومن ہے)
علی بن مدنی جو امام بخاری کے شیخ ہیں ، انہوں نے ’’ لا تَزالُ طائفةٌ مِن أمَّتي مَنصورينَ ‘‘ کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد اہلحدیث ہیں :
حدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’ أيُّ الخلقِ أعجبُ إليكم إيمانًا؟، قالوا: الملائكةُ، قال: وما لهم لا يؤمنون وهم عند ربِّهم !، قالوا: فالنبيون، قال: وما لهم لا يؤمنون والوحيُ يَنزِلُ عليهم؟ !، قالوا: فنحن، قال: وما لكم لا تؤمنون وأنا بين أَظْهُرِكم؟ قال: فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : إن أعجبَ الخلقِ إليَّ إيمانًا: لقومٌ يكونون من بعدي؛ يجِدون صُحُفًا فيها كتابٌ، يؤمنون بما فيها ‘‘[2] رواہ البیہقی فی دلائل النبوۃ ۔
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے سوال کیا کہ تمہارے نزدیک مخلوق میں سب سے زیادہ پسندیدہ ایمان والے کون ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا : فرشتے ہیں ، آپ نے فرمایا: ان کے لئے کیا بات ہے کہ وہ ایمان نہ لائیں ، جب کہ وہ اللہ کے مقرب ہیں ؟ صحابہ نے کہا: پھر انبیاء علیہم السلام سب سے بہتر ایمان والے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ان کے لئے کیا بات ہے
[1] مسلم ایمان : ۵۰ ۔
[2] مشکاۃ مناقب : ۶۲۷۹، اسنادہ ضعیف ۔