کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 150
اپنے اوپر یہ بھی واجب بنا لیتا ہے کہ جس شخص نے اس کے جواب میں کوئی رسالہ یا کتاب لکھی ہے، گو واضح دلیل لایا ہو، اور آفتاب نصف النہار کی طرح روشن حجت بیان کیا ہو، ہرگز اس کو قبول نہیں کرے گا، اور جو کچھ پہلے روز گایا بجایا ہے، خواہ مخواہ اس کی توجیہ ، تاویل واثبات میں ہر گھاس پھوس میں لپٹ جاتا ہے، جواب نگاری کے نام سے چند اوراق سیاہ کرکے کچھ بازاری قسم کے لوگوں میں نمائش کرتا پھرتا ہے، جب کہ اہل علم ومعرفت اس پر ہنستے اور اس کے جواب ناصواب کا مذاق اڑاتے ہیں ۔
علماء وقت اور فقہاء عصر میں ایسے بھی ہیں جو بہت لمبے چوڑے دعوے رکھتے ہیں ، کچھ مت پوچھو کہ دین کو کس طرح بچوں کی گڑیا اور جاہلوں کا کھلونا بنائے ہوئے ہیں ، خدا ترسی اور حیا داری کو صاف جواب دیئے ہوئے ہیں ، ان سب کے باوجود ہم نہیں جانتے کہ قیامت برپا ہونے میں کیوں دیر ہے؟ اور آسمان سے تاروں کے جھڑنے میں تاخیر کہاں سے ہو رہی ہے؟ شاید اس مٹھی بھر استخوانی ڈھانچہ کا وجود وبقا سنت کی پیروی کرنے والوں کی وجہ سے ہے، جو ہر تاریک زمین سے اٹھے ہیں ، اور جس طرح بھی ہو سکا توحید وسنت کو طاعت کا سرچشمہ اور نجات کی بنیاد سمجھ کر احیاء سنت اور ازالہ بدعت کے لئے ممکن حد تک مشغول ہیں ، اور نگینۂ ایمان میں پردیسی اور اجنبی کی طرح پڑے ہیں ؎
ہم سایہ چوں بسوختن مارضا نداد رفتیم ودر محلۂ بیگانہ سوختیم
یک حرف آشنا بغلط ہم کسے نگفت چند انکہ خواب خوش بہر افسانہ سوختیم
(پڑوسی جب ہماری سوختگی پر راضی نہیں ہوا تو ہم اجنبی محلہ میں جاکر جل مرے، کسی نے غلطی سے بھی شناسائی کا ایک لفظ نہیں کہا، جب کہ ہم نے افسانہ کے لئے کتنی عمدہ نیند کو جلایا ہے)
الحمد للہ ہر زمانے میں اللہ تعالی کی نصرت وحمایت سے ایک خوش نصیب جماعت حق پر گامزن رہتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: