کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 147
متعصب جامد مقلدین حنفیہ کو اور ان کے اخوان کو دیکھو جو دوسرے مذاہب کے مقلد ہیں کہ ہر چند رجال کی تقلید بدعتِ ضلالت اور باطل امور میں سب سے بڑی باطل چیز ہے، پھر بھی کوئی محدث ان میں سے کسی معین شخص کی تکفیر نہیں کرتا ہے، بلکہ اتنا ہی کہتا ہے کہ دین میں تقلید شرک ہے، اور گذشتہ کفار سے منقول ہو کر آئی ہے، اس لئے قول وعمل میں تقلید کا دامن پکڑنا حرام ہے، کیونکہ اس سے جناب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخی ، اور ائمہ اربعہ مجتہدین پر افترا پردازی کا گناہ ہاتھ آتا ہے، اس لئے کہ ان ائمہ کا قول ہے کہ صحیح حدیث کا علم ہونے کے بعد ان کے قول کو لینا ناجائز ہے۔ اگر کوئی حدیث اس باب میں معلوم نہیں ہے، اور مقلد کے ہاتھ میں امام یا ماموم کے مذہب کے سوا اور کچھ نہیں ہے، تو حدیث پہنچنے تک وہ معذور ہے، ہاں یہ جمود اس وقت جرم ہے، جب احادیث کے مجموعے طلبۂ زمانہ کو دستیاب ہوں ، اور ادنی توجہ سے اس علم شریف کی کتابیں حاصل ہوسکتی ہیں ، نیز علماء اہلحدیث کے مدرسین ومولفین موجود ہوں جو کتاب وسنت کے موافق مسائل واحکام بیان کرنے پر قادر ہیں ، ان سب کے باوجود اگر کوئی شخص تعصب ، ہٹ دھرمی ، حمیت، عصبیت، جہالت اور نفسانیت کی وجہ سے دیدہ ودانستہ تقلید کو اتباع پر مقدم کرتاہے، اور سنت صحیحہ پر عمل کرنے والوں کی نسبت نازیبا کلمات اور بے ادبی کے الفاظ زبان پر ہانکتا ہے اور کہتا ہے کہ قال قال بہت ہے، میں حدیث کو کلام امام یا امام کلام کے مقابل میں قبول نہیں کرتا ہوں ، مزید یہ کہ اصحاب سنت کو لعن طعن، سب وشتم اور ان پر قدح وجرح کرتا ہے، تو ایسا شخص بے شبہ کافر صریح ، لائق قتل اور قابل گردن زدنی ہے، اور جس طرح کمان سے تیر نکل بھاگتا ہے، اسی طرح یہ شخص دائرہ اسلام سے باہر ہوجاتا ہے ، اور گوندھے آٹے سے بال کی طرح دین سے نکل جاتا ہے۔ بایں ہمہ ضروری نہیں ہے کہ ان لوگوں میں سے کسی ایک فرد کو بالتعیین کافر کہا جائے، اور اس پر کفر کی مہر لگا دی جائے، اس جگہ بھی اتباع سنت کے راستہ پر چلنا اور اسی سابق مقدار پر اکتفاء کرنا کافی ہے، کیونکہ بغیر عذر صحیح کے صحیح حدیث کا منکر خود کافر ہو جاتا ہے، جو