کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 146
یا کسی کو دیکھیں کہ کاہن (جادوگر ) کے پاس جاتا ہے ، اور اس کو راست گو سمجھتا ہے ، تو اس کو یہ کہا جاسکتا ہے کہ حدیث میں ہے:
’’ مَنْ أَتى كاهِنًا فَصَدَّقَهُ فقد كفرَ بما أُنزِلَ على محمَّدٍ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘[1] (جو شخص کاہن کے پاس گیا، اور اس کی بات پر یقین کیا تو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شریعت کا انکار کیا)
اسی طرح شارع نے جس پر تصریح کے ساتھ کفر کا حکم فرمایا ہے، جیسے خوارج وروافض ، تو ان پر علی الاطلاق کفر کا حکم کر سکتے ہیں ، تعیین کے ساتھ نہیں۔
منہج اہل سنت
اہل سنت وجماعت جو رافضہ کو کافرکہتے ہیں ، انہوں نے یہ حکم جنس رافضہ پر کیا ہے، ان کے خاص اعیان وافراد کو کافر نہیں کہا ہے، اگرچہ یہ جانتے ہیں کہ فلاں شخص شدید الرفض اور کفر کا مصداق ہے، لیکن ضرورت کیا ہے کہ اس کو تعیین وتشخیص کے ساتھ کافر کہا جائے ، کوئی رافضی اگر یزید پلید (فیہ نظر) سے بدتر ہوگا تو بھی اہل احتیاط وتقوی نے اس کے کفر کا حال جاننے کے باوجود اس پر لعن طعن کرنے سے زبان بند رکھا ہے، اسی طرح اہل بدعت کے بارے میں بدعت اور بدعتیوں کی مذمت کی احادیث کو اہل سنت وجماعت روایت کرتے ہیں ، اور ان کا حکم بیان کرتے ہیں ، لیکن کسی خاص شخص کو اس کا مصداق مقرر نہیں کرتے ہیں ۔
بعض بدعات ایسی ہیں جو بدعتی کو کفر کی حد تک نہیں پہنچاتی ہیں ، جیسے معتزلہ ومرجئہ کی بدعات ہیں ، اسی لئے سنی لوگوں نے ان کی تکفیر نہیں کی ہے، اور جیسے زیدیہ کی بدعت ہے کہ یہ لوگ فروع میں حنفی اور اصول میں معتزلی ہیں ، یہی حال فرقہ تفضیلیہ کا ہے کہ ان کی بدعت بھی کفر کی سرحد تک کشید نہیں کرتی ہے، اسی پر اوروں کو بھی قیاس کرو۔
[1] ابو داود ، طب : ۳۹۰۴، ترمذی طہارہ: ۱۳۵، صحیح۔ تنبیہ: ابو داود کی روایت میں ’’فقد کفر‘‘ کے بدلے ’’فقد بریٔ‘‘ اور ترمذی میں یہ روایت لفظ ’’فصدقہ‘‘ کے بغیر ہے۔