کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 145
کفر صریح اور کفر تاویل
علماء محدثین وفقہاء میں سے محققین نے کافر صریح اور کافر تاویل کے درمیان فرق کیا ہے، اور کہا ہے کہ کفر صریح ، کفر بواح ( کھلا ہوا کفر ) ہے اور کفر تاویل بدعت ہے ، اس کفر والا اصل ایمان سے خارج نہیں ہوتا ہے، اس کو اشتباہ پیش آگیا ہے، نصوص کے معنی اور دلائل کے مدلول معلوم کرنے میں اس کی فہم نے کوتاہی دکھائی ہے، پس وہ اس بدعی تاویل میں معذرت پذیری اور دست گیری کے لائق ہے، اس کو نصیحت کرنے اور کیفیت استدلال وطریقۂ احتجاج کی معرفت کے بارے میں اس کے شبہات وتقصیرات کے ازالہ کے لئے کوشش کرنی چاہئے، اس کو ہرگز ایمان سے خارج اور دائرۂ کفر وتکفیر میں داخل نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ کسی پر کفر کا حکم کرنا اس کا گھر برباد کرنا ہے، اور مسلم مومن پر عظیم جرأت اور زبردست جرم ہے۔
امام ربانی نے وابل الغمام میں بڑی عمدہ بات کہی ہے، ان کے کلام کا خلاصہ یہ ہے۔
جو شخص ایمان کا اقرار کرتا ہے، اور ظاہر میں مسلمان ہے، ہر چند کہ وہ بدعتی اور نئی نئی چیزوں سے شغل رکھتا ہو، اس پر کفر کا حکم نہیں کرنا چاہئے، اور نہ اس کے حق میں دشنام بازی وفحش کلامی کرنی چاہئے، زیادہ سے زیادہ یہ کریں کہ جس قول وفعل کے کہنے اور کرنے والے کو شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے کافر کہا ہے، اس کو بیان کردیں ، یہ منع نہیں ہے، لیکن معین طور پر نہ کہیں کہ فلاں شخص جو یہ کام کر رہا ہے ، یا کیا ہے وہ کافر ہوگیا، اس لئے کہ اس قسم کے مواقع پر حق عبارت یہ ہے کہ یوں کہیں کہ شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کام کو کفر کہا ہے، اور اس کے کرنے والے پر لفظ کافر کا اطلاق کیا ہے، مسلمان کو اس باب میں احتیاط سے کام لینا لازم ہے، پس اسی قدر اشارہ کرنے اور حدیث کو بلفظہ بیان کرنے پر اکتفا کریں ۔
مثلا تارک نماز کو جو قصداً نماز نہیں پڑھتا ہے، یہ کہہ سکتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے : ’’ مَن تَرك صلاةً متعمِّدًا فقد كفَر ‘‘[1] (جس نے قصداً نماز چھوڑ دیا اس نے کفر کیا)
[1] اس حدیث کو طبرانی نے فقد کفر کے بعد جھاراً کی زیادتی کے ساتھ روایت کیا ہے، شیخ البانی ؒ کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے۔ ( الضعیفۃ ۶ / ۱۲ )