کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 144
ہے، جس شخص کو اس پر عمل کی توفیق حاصل ہوتی ہے وہ ان پر کاربند رہتا ہے۔ اس تیرہویں صدی ہجری میں جس کے چھ مہینے گذرنے کو باقی ہیں ، حال یہ ہے کہ دین کے بارے میں اکثر بحث کرنے والے اور رسائل ومسائل میں متبعین کے ساتھ مناظرہ کرنے والے ان امور ممنوعہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں ، ﴿ وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا﴾ [1] (انسان سب چیز سے زیادہ جھگڑالو ہے) غرض کہ مسئلہ میں بحث چلتی ہے تو مخالف کو زبان وبیان سے ہر ناشائستہ کلمہ کے ساتھ یاد کرتے ہیں ، یہاں تک کہ بے دھڑک کافر، فاسق ، یا بدعتی جاہل کہہ دیتے ہیں ، اور قسم قسم کی غیبت ، گالی گلوج سے اپنے ایمان کی آبرو ریزی کرتے ہیں ، جانتے نہیں ہیں کہ گیدڑ کی فریاد گیدڑ کے لئے وبال ہے، اور دشنام بازی لعنت کے فوارہ سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ لوگ دوسروں کو جن القاب سے متصف کرتے ہیں ، اگر ان کے گمان وخیال کے مطابق حقیقت وواقعہ میں ویسے نہیں ہیں تو بلاشک وشبہ یہ خود ان برے القاب وکلمات کے مصداق ہیں ، اور ایمان سے خارج ہو کر دائرۂ ارتداد میں آجاتے ہیں ، حالانکہ شرع میں جان ومال اور آبرو کا حکم ایک ہے، عوام کو چھوڑو جو خود ہی مستحق التفات وخطاب نہیں ہیں ، ان لوگوں کو دیکھوجو خود کو خواص میں ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں ، اختلافی مسائل اور نوساختہ امور جن کے یہ خود قائل وفاعل ہیں ، ان میں بحث کے وقت اپنے مخالف کو جو کتاب وسنت سے دلیل لاتا ہے، کفر اور کافر ہونے کی طرف منسوب کرتے ہیں ، یہ جرأت اس گروہ کی جانب سے وجود میں آئی ہے جو اپنی دیانت کو کھیلواڑ بنائے ہوئے ہے، اسی طرح ایک دوسرا گروہ ہے جو اپنے کو ان لوگوں کے جواب کے لئے تیار کرکے ان کی برابری میں یہی گناہ کر رہا ہے ؎ چہ قدر بدشت وحشت بہ پیت دویدہ ام من بہ کجا رسیدۂ تو بکجا رسیدہ ام من ( وحشتناک جنگل میں تیرے پیچھے کس قدر دوڑا ہوں ، تم کہاں پہنچے، اور میں کہاں پہنچا ہوں )
[1] سورۃ الکہف : ۵۴۔