کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 141
انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ الْمُسْتَبّانِ ما قالا فَعَلى البادِئِ، ما لَمْ يَعْتَدِ المَظْلُومُ ‘‘[1]
( دو شخصوں کے درمیان جو گالی گفتار ہوتی ہے، اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے، جب تک کہ دوسرا جواب میں زیادتی نہ کرے)
صحیح مسلم میں ابو ہریرہ کی مرفوع حدیث ہے کہ :
’’ لا يَنْبَغِي لِصِدِّيقٍ أنْ يَكونَ لَعّانًا ‘‘[2]
(یعنی مومن کے لئے جائز نہیں ہے کہ کثرت سے لعن طعن کرتا رہے)
دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ إنَّ اللَّعّانِينَ لا يَكونُونَ شُهَداءَ، ولا شُفَعاءَ يَومَ القِيامَةِ ‘‘ [3]
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ إِنَّ شَرَّ الناسِ عندَ اللهِ منزلةً يومَ القيامَةِ مَنْ تَرَكَهُ الناسُ اتقاءَ شرِّهِ ‘‘ وفی روایۃ ’’ اتِّقاءَ فُحشِه ‘‘[4]
(قیامت کے روز اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بدترین پوزیشن والا وہ شخص ہوگا جس کے شر اور بدکلامی سے بچنے کے لئے لوگ اس سے دور رہتے ہیں )
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ إنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بالكَلِمَةِ مِن سَخَطِ اللَّهِ، لا يُلْقِي لها بالًا، يَهْوِي بها في جَهَنَّمَ ‘‘ ایک روایت میں یہ لفظ آیا ہے : ’’ يهوِي بها في النّارِ أبْعَدَ ما بيْنَ المَشْرِقِ والْمَغْرِبِ ۔‘‘ [5]
(بیشک بندہ بغیر سوچے سمجھے اللہ کی ناراضی کی بات بول جاتا ہے، اس کی وجہ سے
[1] مسلم ، البر : ۲۵۸۷، ابو داود ، الادب : ۴۸۹۴۔
[2] اس کی تخریج حاشیہ نمبر ۵۲ میں گذر چکی ہے۔
[3] اس کی تخریج حاشیہ نمبر ۵۱ میں گذر چکی ہے۔
[4] بخاری الادب : ۶۰۳۲ ، ۶۰۵۴، مسلم ، البر : ۲۵۹۱۔
[5] بخاری ، الرقاق : ۶۴۷۸، مسلم ، الزھد : ۲۹۸۸۔