کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 139
بنائے تکفیر
اس زمانے میں مقلدین مذاہب کے نزدیک دوسرے کی تکفیر غالبا اس بنا پر ہے کہ دین کے فروعی مسائل میں وہ دوسرا ائمہ اربعہ کی مخالفت کرتا ہے، یعنی جس نے حدیث سے تمسک کیا، اور اس حدیث کی وجہ سے مذہب رائے وقیاس کو رد کردیا، تو مقلدین بے تکلف اس پر کفر کا حکم کردیتے ہیں ، اور ہر پتھر وڈھیلا اس پر پھینکنا پسند کرتے ہیں ، اس کی مخالفت کو امام کے حق میں استخفاف سمجھتے ہیں ، کیونکہ ان کے نزدیک امام سے اختلاف کرنا مرتد ہونے سے بدتر ہے، گویا کہ امام ان لوگوں کی نظر میں رسول واجب الاطاعۃ کی طرح ہے ، اور اس کی معصومیت فاتحۃ الکتاب میں نازل ہوئی ہے۔
یہ صورت کار مقلدین کی طرف سے ان فقیروں کی جان پر ظلم محض ہے، کیونکہ رائے کی مخالفت کرنے والا سنت کا معتقد ، حدیث پر عامل اور اس کا داعی ہے، اس لئے دین میں اس کا مرتبہ ان مقلدین سے بالکل کم تر نہیں ہے، اور اس کا امام یا ماموم کی رائے قبول نہ کرنا امام کے ساتھ لڑائی جھگڑے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ اس نے امام کے حکم کے خلاف حدیث پائی ہے، جو امام کو نہیں پہنچی تھی ، یا پہنچی مگر کوئی صحیح عذراس پر عمل کرنے سے مانع ہوا، پس امام عند اللہ معذور بلکہ اپنی اجتہادی غلطی کی بنا پر ماجور ہے، اور وہ شخص جس سے تمام عذرات زائل ہو چکے ہیں ، اگر ان احکام میں امام کا قول ترک نہ کرے، اور رسول مختار کی صحیح حدیث کے حکم پر عمل پیرا نہ ہو تو غیر معذور بلکہ گنہگار ہے۔
آگے آگے کود پھاند کرنے والے مقلدین کی طرف سے ان غریبوں کی تکفیر داد خواہوں کی جان پر سراسر ظلم ہے، یہ مقلدین ہرگز اس تکفیر کا کوئی جواب اور اپنی تقصیر کی کوئی معذرت اپنے پاس نہیں رکھتے ہیں ، سوائے ایک صورت کے کہ ہر چھوٹے بڑے مسئلہ میں امام کی اطاعت کو اللہ ورسول کی اطاعت کے رنگ میں اثبات کو پہنچائیں ، ’’ودونہ خرط القتاد‘‘ (یہ انہونی بات ہے، اس کے پیچھے ہاتھ لہولہان ہو جائے گا ) اور جب ایسا نہیں کرسکیں گے تو خود ہی اس تکفیر کے مصداق ومدلول ہو جائیں گے ، کیونکہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا