کتاب: ائمہ اربعہ کا دفاع اور سنت کی اتباع - صفحہ 137
المیہ
دین میں ایک سخت مصیبت یہ ہے کہ ہزار سال کے بعد مثلا ایک قوم ظاہر ہوئی جو اہل علم کی پوشاک پہنتی ہے،فضیلت کا پیشہ اختیار کرتی ہے، باپ دادا کے اجتہاد اور گذرے ہوئے لوگوں کی رائے پر فتوی دیتی ہے، اور جن مذاہب کا اپنے کو مقلد کہتی ہے ان کی مدد وغلبہ کے لئے حقائق ایمان سے گذر جاتی ہے ، یعنی مسائل حدیث پر سرد مہری اختیار کرتی اور باطل چیزوں پر ہاتھ مارتی ہے، اس طرح یہ جماعت ، سلف صالح کو برا بھلا کہنے اور اپنے گناہ کے ساتھ دوسروں کے گناہ اکٹھا کرنے کا سبب ہوتی ہے، اور سمجھتی ہے کہ اگر کوئی ناجی ہے تو وہ اور اس کے ہم مذہب ہی ہیں ، باقی تمام کے تمام بے اعتبار اور جہنمی ہیں ، لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
ایک دوسری جماعت بھی نمودارہوئی ہے جو عمل بالحدیث کا دعوی تو کرتی ہے، لیکن اس نے رد تقلید کے سلسلے سے ائمہ اربعہ اور ان جیسے سلف صالح کے بارے میں لمبی چوڑی قیل وقال شروع کر رکھی ہے، اور حدود سنت مطہرہ سے تجاوز کرکے ہلاکت کے گڈھے میں اوندھی گری پڑی ہے اور نازیبا حرکتوں سے آراستہ ہو کر خیال کر رہی ہے کہ شاید اتباع اسی کا نام ہے کہ امت کے ائمہ اور سلف کو برائی سے یاد کیا جائے، اور زبان کو ان لوگوں کی برائیوں اور عیبوں میں بے لگام کر دیا جائے، فانا للہ وانا الیہ راجعون، جس طرح خوف ورجا کے درمیان ایمان ہوتا ہے ، اسی طرح افراط وتفریط کے درمیان جو حق صریح اور صواب صحیح ہے وہ درمیان سے نکل گیا اور پھول کی جگہ خار نے لے لی ۔
بلا شبہ عمل بالحدیث وہ عظیم چیز ہے جو غیبت ، بدگوئی ، زبان درازی ، دیوانگی ، دریدہ دہنی اور زبان واعضاء کی تمام برائیوں سے مانع ہے، اور اکابر دین کے حق میں ناشائستہ اقوال وافعال کے صدور کا ہر گز مقتضی نہیں ہے، یہ کام اسی شخص کو مبارک ہو جو اجتہاد کا دعوی کرتا ہے، یا تجدید دین کا راگ الاپتا ہے، اور اس کا اجتہاد مومنوں کی تکفیر ، مسلمانوں کو گالی گلوج بکنے، محدثین ومتبعین کو بلا وجہ لعن طعن کرنے کی طرف لے جاتا ہے، اس کے پاس اس